دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم او آئی سی کے نام سے قائم ہے اور یہ باقاعدہ فعال بھی ہے اور اس کی فعالیت ایسے ہے کہ ہر سال اس کے ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک عالمی کانفرنس بھی منعقد ہوتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار اس کی سربراہ کانفرنس بھی منعقد ہوجاتی ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ تنظیم محض نشستاً گفتاً اور برخواستاً نظر آتی ہے کیونکہ فلسطین ، کشمیر ، بوسنیا ، عراق امریکہ جنگ ، افغانستان پرسویت یونین کی چڑھائی اور بعد میں افغانستان پر نیٹو ممالک کی چڑھائی کے موقع پر اس تنظیم کا کردار کہیں نظر نہیں آتا ، اسی تنظیم نے غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔او آئی سی نے اسرائیل سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت بند کرنےکا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ غزہ پٹی کا محاصرہ فوری ختم کیا جائے، اوآئی سی نے عالمی برادری سے غزہ پٹی کے لیے امداد فوری بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔او آئی سی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی فسلطینی پناہ گزین ایجنسی سے تعاون کرے، غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری جنگی جرم ہے، عالمی برادری جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لائے، غزہ پٹی سے فلسطینیوں کے نکل جانے کے اسرائیلی مطالبے کو مسترد کرتے ہیں۔او آئی سی نے کہا ہے کہ عالمی برادری مشرق وسطی میں امن کوششیں تیز کرے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔سیکرٹری جنرل او آئی سی نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم مسئلہ فلسطین کا فوری حل چاہتی ہے، اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اسرائیلی فورسز نے نہتے فلسطینی عوام پر حملہ کیا، جس سے فلسطینی عوام کو نامساعد حالات کا سامنا ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ حسیم ابراہیم طحہ نے کہا کہ او آئی سی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، امت مسلمہ فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے، بین الاقوامی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے آگے بڑھے، اسرائیلی فورسز کا غزہ میں ہسپتال پر حملہ شرمناک عمل ہے، فلسطینیوں کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں، اسرائیل 1967 کی قرارداد کا احترام کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو فوری طور پر عملی جامہ پہنائے۔دوسری جانب فلسطینی تنظیم حماس کے زیرانتظام وزارت صحت نے کہا ہے کہ ساحلی علاقے میں مختلف مقامات پر اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں گزشتہ رات کم سے کم 50 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔بدھ کووزارت نے کہا کہ تازہ ترین حملہ ساحلی علاقے کے جنوبی حصوں میں دیر البلاح، رفح اور خان یونس شہروں کے ساتھ ساتھ شمالی غزہ کی پٹی میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ہوا۔فلسطینی وزارت نے کہا کہ غزہ میں تنازعہ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیلی فوجی حملوں میں کم سے کم 35 سو فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں،سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد برازیل نے پیش کی تھی۔امریکا نے دوسری بار سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا ہے، اس سے پہلے روس نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تھی۔ انہیں بھی امریکا نے ویٹو کردیا تھا۔سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پر 15 میں سے 12 ارکان نے حمایت میں ووٹ دیئے جبکہ روس اور برطانیہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہے۔ادھر امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ کے اسپتال پر حملے کی ذمہ داری فلسطینی گروپ پر ڈال دی،جوبائیڈن نے کہا کہ 7اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 31امریکی شہری بھی مارے جاچکے ہیں،اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ مصر کے راستے غزہ کی پٹی میں آنے والی امداد کا راستہ نہیں روکا جائے گا۔اسرائیلی حکومت نے یہ اعلان امریکی صدر جوبائیڈن کے دورے اور اتحادی ممالک کی جانب سے غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں تک امداد کی ترسیل کی اجازت دینے کے لیے بڑھتے ہوئے دبا کے بعد کیا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انہیں غزہ میں ہسپتال پر حملے کے بعد سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت پرانتہائی صدمہ پہنچا ہے۔ ایک ٹویٹ میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا دل جاں بحق ہونےوالوں کے خاندانوں کے ساتھ ہے،انہوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ہسپتالوں اور تمام طبی عملے کو تحفظ حاصل ہے۔انہوں نے قبل ازیں منگل کوفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے زیر انتظام سکول پر حملے کی بھی مذمت کی جس میں کم سے کم چھ افراد جاں بحق ہوئے۔
نگران وزیر اعظم کا فلسطین کی صورتحال پر اظہار تشویش
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ جو ان دنوں عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر ہیں نے بیجنگ میں منعقدہ تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کی جہاں انہوں نے عالمی رہنماو¿ں سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ نگران وزیراعظم کی سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سے ملاقات ہوئی جس میں دونوں رہنماں نے عالمی و علاقائی امور پر تفصیلی گفتگو کی جبکہ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے غزہ میں ہسپتال پر حملے اور فلسطینیوں کی شہادت کو انسانیت سوز اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی قرار دیا اور نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کی بھرپور مذمت کی۔ انوار الحق کاکڑ نے فوری جنگ بندی کے ساتھ ساتھ متاثرین تک مدد کی ترسیل پر زور دیا، وزیر اعظم نے اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں سے فوری طور پر فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انوارالحق کاکڑ نے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے ہسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس میں متعدد شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں، ہسپتال کو نشانہ بنانا غیر انسانی فعل ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون ہسپتالوں اور طبی عملے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، عالمی برادری پر زور دیتے ہیں کہ وہ تشدد کو روکنے کے لیے تیزی سے کام کرے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ اپنی بات چیت میں میں نے ان پر زور دیا تھا کہ عالمی برادری اسرائیل سے کہے کہ وہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے۔ قبل ازیںنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ اسپتال کو نشانہ بنانا غیر انسانی فعل ہے کیونکہ عالمی انسانی قانون اسپتالوں اور طبی عملے کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ کے چینی وژن کے تحت رابطوں کے فروغ کے لیے چین اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے، سی پیک ترقی، خوشحالی، عوام کا معیار زندگی بلند اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عوام کو غربت سے نکالنے کا ذریعہ ہے۔
غیر قانونی تارکین وطن اور نگران وزیراعلیٰ کے پی کے
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں موجود غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے انخلا کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کررہی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ تارکین وطن خود رضاکارانہ طور اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں تاکہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور قانون نافذکرنے والے دیگر اداروں کو ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرنا پڑے ، چنانچہ اس حوالے سے آگاہی مہم جاری ہے ، اس عمل میں 31اکتوبر کو آخری رکھا گیا ہے ، اس مدت تک جو تارکین وطن رضاکارانہ طور پر چلے جائیں گے ان کے خلاف پاکستانی قانون کے مطابق کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی البتہ اگر کوئی حکومت پاکستان کے احکامات کو تسلیم نہیں کرتا اور مقررہ مدت گزرنے کے باوجود بھی پاکستان میں مقیم رہتا ہے تو پھر ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کسی قسم کی کوئی نرمی یا رعایت نہیں برتی جائیگی ، اسی حوالے سے نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے کہا کہ رضا کارانہ واپس جانے والے غیر ملکیوں کو تمام سہولیات اور معاونت فراہم کی جائے گی۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے انخلا کے حوالے سے کہا کہ صوبہ میں غیر قانونی مقیم غیر ملکی افراد 31اکتوبر سے قبل اپنے ملک واپس چلے جائیں،۔محمد اعظم خان نے مزید کہا کہ ضلعی انتظامیہ، متعلقہ اداروں کو واپس جانے والے غیرملکیوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے، حکومت غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی باعزت واپسی چاہتی ہے۔
غزہ کے محاصرے پر او آئی سی کا موقف
