بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے، اپنے قدرتی وسائل، ثقافتی ورثے اور قبائلی نظام کے باعث ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کے قبائل صدیوں سے اپنی روایات، رسوم اور اقدار کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم ان قبائلی روایات میں کچھ ایسی قدریں بھی شامل ہو چکی ہیں جو نہ صرف انسانی حقوق کے منافی ہیں بلکہ اسلامی اصولوں اور ملکی قوانین سے بھی متصادم ہیں۔حال ہی میں بلوچستان کے ایک قبائلی علاقے میں ایک خاتون کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں بلکہ ایسے درجنوں واقعات ہر سال سامنے آتے ہیں جو ہمارے نظامِ انصاف، معاشرتی اقدار اور حکومتی عملداری پر سوالیہ نشان ہیں۔بلوچستان میں اب بھی جاگیردارانہ اور قبائلی نظام پوری قوت کے ساتھ قائم ہے۔ سردار ملک اور جرگے ایسے فیصلے کرتے ہیں جن میں عورت کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔خواتین اور لڑکیوں کو ونی، سوارہ یا بدل کے طور پر دوسرے قبیلے کو دیا جانا عام روایت ہے۔قبائلی سردار اکثر قانون سے بالاتر سمجھے جاتے ہیں۔ جرگے کی اجازت کے بغیر شادی کرنا قبیلے کے "قوانین” کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے، چاہے وہ شادی قانونا اور شرعا درست ہی کیوں نہ ہو۔ سرداروں کی خاموشی، بعض اوقات شہہ، ان جرائم کو تقویت دیتی ہے۔پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ 2016 میں "اینٹی آنر کلنگ بل” منظور ہوا جس کے تحت غیرت کے نام پر قتل میں قاتل کو معافی نہیں دی جا سکتی لیکن عملدرآمد کا حال یہ ہے کہ ایسے مقدمات یا تو درج ہی نہیں ہوتے یا دبا کے تحت واپس لے لیے جاتے ہیں۔بلوچستان جیسے علاقوں میں پولیس، میڈیا اور عدلیہ تک رسائی محدود ہے۔ ریاستی ادارے اکثر قبائلی اثر و رسوخ کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ جب تک قانون کی رِٹ پورے ملک میں یکساں طور پر قائم نہیں ہوگی، ایسے مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا۔بلوچستان کی شرح خواندگی ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ترین ہے۔ خاص طور پر خواتین کی تعلیم کو سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ ایک غیر تعلیم یافتہ معاشرہ نہ صرف عورت کے حقوق کو پامال کرتا ہے بلکہ ہر مثبت تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔تعلیم نہ صرف شعور پیدا کرتی ہے بلکہ جبر، تعصب، اور ظالمانہ روایات کے خلاف ذہنی بغاوت کو بھی جنم دیتی ہے۔ تعلیم یافتہ عورت اپنے حق کو پہچانتی ہے اور معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شاید اسی لیے قبائلی نظام عورت کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتا ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ چند اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔1. غیرت کے نام قتل کے مجرموں کو فوری سزا دی جائے، چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔2. جرگہ سسٹم کو محدود کیا جائے اور تمام فیصلے ملکی عدالتوں میں قانون کے تحت ہوں۔3. بلوچ علاقوں میں خواتین کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے۔ لڑکیوں کے اسکول اور کالج تعمیر کیے جائیں۔4. علما، اساتذہ، اور میڈیا کو متحرک کیا جائے کہ وہ عوام میں اسلامی تعلیمات اور قانون سے متعلق شعور پیدا کریں ۔5.حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے علاقوں میں خواتین کے تحفظ کیلئے ہیلپ لائنز، پناہ گاہیں اور قانونی امداد کے مراکز قائم کرے ۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف جغرافیائی یا معاشی نہیں، ببلکہ ایک گہرا سماجی و فکری بحران بھی ہے۔ جب تک ہم بحیثیت قوم عورت کو عزت، اختیار اور تحفظ نہیں دیں گے، ہم کبھی ترقی یافتہ، مہذب اور انصاف پسند معاشرہ نہیں بن سکیں گے۔غیرت کے نام پر قتل دراصل غیرت نہیں، بلکہ انسانیت کی توہین ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی روایات پر نظرثانی کریں، ان کو انسانی، اسلامی اور قانونی دائرے میں لائیں اور اگر ہمیں واقعی اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو عورت کو جینے، سیکھنے، اور پسند سے زندگی گزارنے کا حق دینا ہوگا۔
غیرت یا جہالت۔۔۔!
