نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑنے فلسطین کے ’دو ریاستی‘ حل پر قائد اعظمؒ کے موقف سے ’روگردانی‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظمؒ جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔‘افغانستان بارے ان کا کہنا تھا کہ افغان کی سرزمین سے جڑے ہوئے حملے ہو رہے ہیں، یہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں، ہمیں بھی پتہ ہے۔اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ ان حملوں کو روکنے کے سلسلے میں ان کی صلاحیت کتنی ہے، یا (ان کے) ارادے کیا ہیں؟ دونوں پر بات ہوسکتی ہے لیکن یہ لوگ افغانستان میں موجود ہیں، کچھ ہماری طرف بھی ان کے لوگ ہیں۔ ٹی ٹی پی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں، لہٰذا اس پورے پیرائے میں جب تک افغانستان کی صورت حال اور ان کی جانب سے عزم سامنے نہیں آئے گا تو یہ بات ختم نہیں ہوگی۔
نگران وزیر اعظم نے نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں فلسطین اور افغانستان کے حوالے سے نہایت غیر دانشمندانہ مو¿قف اختیار کیا ہے۔ جناب لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی،پاکستان نے بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ فلسطین کے مسئلے پر مسلسل کمزور، متنازعہ اور بزدلی پر مبنی مو¿قف پیش کررہے ہیں۔ اب نوبت قائداعظمؒ کی فلسطین پر دائمی پالیسی کے خلاف ہرزہ سرائی تک آپہنچی ہے۔ اِسی طرح بلوچستان کے صوبائی نگران وزیر افغانستان، افغان پناہ گزینوں کے مسئلہ پر مسلسل عدم حکمت پر مبنی زہر ا±گل رہے ہیں، جبکہ صوبائی نگران وزیر کا یہ دائرہ کار نہیں۔ یہ صرف کمزور وفاقی حکومت کی بے بسی اور تماشا ہے۔ نگران حکومت مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور افغانستان و ایران کیساتھ پاکستان کے تعلقات پر بہت ہی خطرناک اور پوری قوم کےلئے ناقابلِ قبول روِش اختیار کیے جارہی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں۔جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟‘
پاکستان بننے سے قبل ہی، مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں، اسرائیل بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔حضرت علامہ محمد اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اس پیش رفت کو سمجھ رہے تھے ؛ چنانچہ ان دونوں عظیم الشان قائدین اپنے پیروکاروں اور جاں نثاروں کو اپنے خطوط ، بیانات اور تقریروں میں صہیونیوں کی ان سازشوں سے آگاہ بھی کررہے تھے اور عملی میدان میں اس پ±ر فریب سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی بھی کوشش کررہے تھے۔فلسطین پر یہودی قبضے کے بارے میں قائد اعظمؒ سخت مشوش تھے۔انھیں صاف نظر آرہا تھا کہ اسلام و فلسطین دشمن مغربی طاقتیں اسرائیل بنانے میں یہودیوں کے لیے راہ ہموار کررہی ہیں۔ ”میر کارواں“ کے مصنف لکھتے ہیں: ”قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر بحث اور غورو خوض کےلئے 1938ءکے اواخر میں انٹرا پارلیمانی کانگریس منعقد کی گئی تھی۔1938ءمیں قائد اعظمؒ مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں اوراستعماری جبر و تسلّط کے خلاف قرار دادیں منظور کراتے ہیں۔مسلم لیگ کا ایک وفد بھی قاہرہ میں فلسطین کے مسئلے پر کانفرنس میں شرکت کےلئے قائدؒ کی ہدایت پر گیا اور واپسی پر اپنی رپورٹ بھی قائد اعظمؒ کو پیش کی۔عرب مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لیے قائد اعظمؒ کی جانب ا±مید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ، حالانکہ ا±س وقت قائد اعظمؒ کسی آزاد مملکت کے سربراہ بھی نہیں تھے۔
مسئلہ فلسطین اور کشمیر کی حمایت بانی پاکستان کے اصولوں کا بنیادی جز ہے۔ اسرائیل سے تعلقات قائد اعظم ؒاور پاکستان کے نظریہ سے انحراف ہے۔ فلسطین سے متعلق قائد اعظمؒ کا دوٹوک موقف موجود ہے جس میں اسرائیل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒاورانکی زیر قیادت مسلم لیگ اور دیگر ساتھیوں نے جو موقف اختیار کیا، وہ جمہوری، قانونی، انسانی و اخلاقی لحاظ سے سوفیصد جائز، ٹھوس اور منطقی تھا۔ مسئلہ فلسطین برصغیر کے مسلمانوں کی سیاست سے زیادہ انکے ڈی این اے میں شامل تھا اور اسی کے سبب حریت پسندی اور مظلومین جہان کی حمایت میں وہ سبھی پیش پیش رہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے علامہ اقبال ؒکو قومی شاعر قرار دیا اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبالؒ نے یہودی نسل پرستوں کے غیر منطقی دعوے کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ:ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق۔ ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بابائے قوم کا موقف بالکل واضح تھا، قائداعظم ؒنے کہا تھا کہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہئیے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہئے تاکہ اس کے حل کیلئے کوششیں تیز کی جاسکیں۔