Site icon Daily Pakistan

غیر ملکی سرمایہ کاری

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلیے ماحول ساز گار ہے ۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے حکومت کوئی دقیقہ فرو گزشت نہیں رکھے گی ۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کرنے کیلیے قانون سازی کی جائے گی ۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو غیر ملکی سیاحوں کو غیر ملکی مہاجرین کو سب غیر ملکیوں کو ہی کیوں اہمیت اور پروٹوکول حاصل ہے ۔ ہمارے ملک کے سرمایہ کار کہاں چلے گئے ۔ ہمارے صنعت کار کہاں اور کن حالات میں ہیں ۔ اس وطن پر اس ملک کے لوگوں کا بھی کوئی حق ہے یا یہاں اب صرف غیر ملکیوں کے ہی حقوق ہیں ۔ جہاں تک میرے ناقص علم میں ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت کبھی بھی مضبوط ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس ملک کے اپنے سرمایہ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے ۔ یہ سٹاک مارکیٹ کے اعشاریہ جو اوپر جا رہے ہیں کیا اسکے ساتھ سونا بھی اوپر نہیں جا رہا ۔ ہمارے روپیہ کی قدر کیوں گری حکومتوں نے قرضے بھی لیے اور نوٹ بھی چھاپے ۔ کس کے کہنے پر ہوا کون ذمہ دار ہے ۔ جس دن مارکیٹ میں مندی جاتی ہے کتنے چھوٹے بڑے سرمایہ کار اس میں ڈوبتے یا گرتے ہیں ۔ سٹاک ایکسچنیج کے کھیل سے امریکہ یورپ مشرق وسطی جیسی مضبوط معیشتیں بھی کریش کر گئی تھیں ۔ بنک دیوالیہ اور کروپوریشنز بند ہو گئیں تھیں ۔بی سی سی آئی جیسا بنک جس میں عرب سرمایہ کاروں کا روپیہ تھا دیوالیہ قرار دیکر عربوں کا سرمایہ لوٹ لیا گیا تھا ۔یہ سٹاک ایکسچینج کا کھیل تھا ۔ پاکستان جیسا ملک اس کھیل کیلیے مناسب نہیں ۔ غیر پیداواری مصنوعی سرمایہ کاری اور جوا سٹہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں جسکی ہمارے دین میں ممانعت ہے ۔ دوسرا اس سے ملک میں کوئی صنعت و حرفت اور روزگار کے ذرائع نہیں نکلتے ۔ یہ کھیل محدود پیمانہ پر سرمایہ کو متحرک رکھ کر معاشی اعشاریہ کو دکھانے کے سوا کوئی خدمت سرانجام نہیں دیتا ۔ آجکل سٹاک ایکسچینج بہت اچھا دکھا رہا ہے اس کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات ہیں ۔ روزمرہ استعمال کی ہر چیز کے نرخ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ان میں کوئی کمی نہیں ہو پا رہی ۔حتی کہ زراعت پیشہ معاشرہ ہونے کے باوجود ملک میں انڈا دودھ دہی ٹماٹر پیاز الو سبزی تک کسی کی قیمت کم نہیں ہو پا رہی ۔ عام آدمی مائیکرو اکنامکس اور معاشی اعشاریہ کے مثبت بتانے والے وزیر خزانہ یا وزیر اطلاعات کو کن القاب سے یاد کرتے ہونگے شاید اسکی عکاسی لفظوں یہاں ممکن نہیں ۔ اس اکانومی کا عام آدمی کو جب فائدہ نہیں تو پھر یقینا یہ طبقہ اشرفیہ کو نوازنے کا ہی طریقہ ہے ۔ اگر اس اکانومی سے ملکی صنعت کار کو تحفظ اور فائدہ نہیں تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ مراعات دینے والی اکانومی کے مستحکم ہونے پر ہمارے وزیر مشیر کیوں نازاں ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے سرمایہ کار کو تحفظ اور مراعات سے محروم رکھ کر ملک اور قوم کو کیسے مستحکم کیا جا سکتا ہے ۔ یہ تو جو کماتے ہیں اپنے ملک لے جاتے ہیں جس دن انہوں نے ایا کر کے اپنا سرمایہ نکال لیا تو کیا ہو گا ۔ ہمارے لوگ پہلے بھی محروم تھے پھر بھی بھکاری ہی رہیں گے ۔ البتہ مائیکرو اکانومی کے موجودہ اور اس وقت کے ماہرین کی دوکان سجی ہی رہے گی ۔ معذرت کے ساتھ وفاقی حکومت کے وزرا الیکٹرانک میڈیا کو عوام کو گمراہ کرنے کیلیے استعمال کرتے ہیں ۔ بجلی کی قیمت میں درجن بھر ٹیکس بھی شامل ہیں ۔گیس کے بل پر ہزار روپیہ فکس جگا ٹیکس کس لیے ۔ بجلی کے بل میں انکم ٹیکس کس انکم پر ہے ۔پر ٹیکس لیا جا رہا ہے ۔فردر ٹیکس کیا ہے ۔ٹیلی ویژن فیس فاضل ایڈجسمنٹ جرنل سیلز ٹیکس کے بعد سیلز ٹیکس کا علیحدہ خانہ کے علاوہ سلیب سسٹم کسی عوامی فلاحی مزاج رکھنے والی حکومت کی پالیسی کہلانے سے متضاد چیز ہے ۔ بجلی کے میٹر کا کرایہ فکس ٹیکس جیسے فلاح و بہبود سے بھرپور شواہد کے بعد حکمرانوں کی عوامی فلاح انسان دوستی اور معاشرتی بہبود پر ایمان لانا تو بنتا ہے ۔ بیشک عوام پر ٹیکس لگائے بنا کوئی حکومت چل ہی نہیں سکتی لیکن ان ٹیکسوں سے نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں غیر ملکی دورے حتاکہ ان سے حج عمرے بھی ان سے مفت علاج ان سے ہر طرح کی مراعات طبقہ اشرفیہ کیلیے ہیں ۔ عوام کے حصہ میں قربانی ہے ۔ ہزار روپیہ دیہاڑی لگانے والا مزدور ٹیکس دیکر حکمران طبقہ اور ان کی عیاشی کی قیمت ادا کرتے ہیں ۔ معذرت کے ساتھ ہماری عوام کی کوئی عزت نہیں کوئی زندگی نہیں حال نہیں مستقبل کا اللہ مالک ہے ۔ عوام سے ہر روز قربانی مانگنے والے سیاستدانوں نے کبھی قربانی کا سوچا ہے ۔ ان کی اولاد بیرون ملکوں میں پڑھتی وہیں ان کے محل وہیں کاروبار ہیں ۔ پاکستان میں یہ سب اقتدار اختیار اور ٹہکے کیلیے آتے ہیں ۔ ان کی اپنی سرمایہ کاری جس صنعت یا کاروبار میں ہے اسے تو سبسٹڈی ضرور ملتی ہے لیکن عام آدمی کے کاروبار پر ٹیکسوں پر ٹیکس ہیں ۔ اکثریت سیاستدان یا تو ریئل سٹیٹ زمینوں سوسائٹییوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں یا انکے سرمایہ کار اس سے وابستہ ہیں دیکھ لیں اس کاروبار پر کتنے ٹیکس ہیں اور بجلی کے بل گیس کے بل اور ایک ریہڑھی لگانے والے پر کیا بیتی ہے ۔چینی فلور ملوں کے مالکان پر کیا ٹیکس ہیں انکے گھروں گاڑیوں ان کے زیر استعمال غیر ملکی امپورٹڈ چیزوں پر کتنے ٹیکس ہیں ۔ ملکی صنعتوں پر ٹیکس اور بجلی گیس ادارہ جاتی مسائل سے سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہا ہے حکومت ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی لیکن غیر ملکی سرمایہ سے پاکستان کو اقوام عالم کا دست نگر بناتی ہے ۔ فلاحی معاشرہ قائم کرنے کیلیے ٹیکس ضروری ہیں عوام پر ٹیکس لگائیں اس میں عوام کو صحت تعلیم کی سہولت مفت میسر ہو ۔ بیروزگاری الاونس دیا جائے ۔ عوام کو سکیورٹی امن عزت دیا جائے ۔ عوام کا خون نچوڑنے کے مترادف ٹیکس وصول کر کے جمہوریت کے پاسدار اپنی مراعات اور تنخواہ پروٹوکول ہی مضبوط کرتے رہیں تو یہ فلاح نہیں استبدادی معاشرہ ہے ۔ جہاں جسکی لاٹھی اسکی بہینس کا قانون چل رہا ہے ۔ یہ معاشرہ جنگل سماں ہے جہاں طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے ۔شاید ہم بھول گئے ہم مسلمان ہیں اللہ اور رسول کے احکامات کے تابع ہیں ۔

Exit mobile version