Site icon Daily Pakistan

فطرت سے بغاوت

یہ جوآج ہم دیکھ رہے ہیں ،یہ جو آج ہمارے ساتھ ہورہاہے اسے آپ شامت ِ اعمال بھی کہہ سکتے ہیں بلاشبہ فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے لگتاہے ابھی کچھ خاص نہیں ہوا یہ ابھی ٹریلرہے پوری فلم چلی تو ہمارا کیا حشرہوگا یہ نوشتہ ٔ دیوار پر لکھا صاف نظرآرہاہے ہے پھرہم اس سے عبرت حاصل نہ کی جائے تو دنیا میں شاید ہم سے زیادہ کوئی عقل کا اندھا ہی ہوگابارشوں کے بپھرے پانی،طوفانی بارشوں ، کلائوڈ برسٹ، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں،لینڈسلائڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کے عذاب نے جو تباہی مچائی اس کا تصوربھی نہیںکیاجاسکتا تھا ۔ زمین کا کٹاؤ اور رابطہ سڑکوں کی بندش ، امدادی کاموںکے تعطل اور وسائل کی کمی نے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا اگر بغورجائزہ لیا جائے تو یہ مون سون نہیں ہے بلکہ موسمیاتی دھڑن تختہ تھا قدرت کی طرف سے ایک بھیانک وارننگ تھی کشمیر، بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، دیر، مانسہرہ، راولپنڈی ،کراچی اور جنوبی پنجاب کے درجنوں علاقوں میں سیلاب،کے پی کے میں MI17 ہیلی کاپٹر کی تباہی سینکڑوںجانوں کے ضیاع ، گھروں اور پلوں کی تباہی نے قیامت پرپاکرکے رکھ دی جس سے یقینا پاکستانیوں کے دل بہت دکھی ہے لیکن یہ سانحات ایک وارننگ ہے قدرت کی تکلیف دہ یاد دہانی کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہمارے گھروں کے اندر داخل ہوچکی ہے جس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس کے مزید خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے کچھ عرصہ پہلے دریائے راوی کے دونوں اطراف درجنوں شہر بسانے کی منظوری دی گئی تھی جس کیلئے RUDA راوی اربن دویلپمنٹ اتھارٹی بھی قائم کردی گئی اب حکومت کی طرف سے اعلان کئے جارہے ہیں کہ دریائے راوی کے گردو نواح کی ہائوسنگ سکیموںا ور صنعتی زونز سیلاب سے بچائو کیلئے اپنا انتظام خود کرلیں حالانکہ حکومت کو یہ پہلے سوچنا چاہیے تھاجب دریائے راوی کے گردو نواح کی اراضی پر لینڈمافیا کو ہائوسنگ سکیمیں بنانے کی اجازت دی گئی تھی اسی طرح راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی میں جنگلات کا صفایاکرکے اپنے پسندیدہ افرادکو نوازا گیا تھا ملتان میں تو ایک ہائوسنگ سکیم بنانے کے لئے کئی ہزار ایکڑ پر قائم ایکسپورٹ کوالٹی کے آموں کے باغات کو بے دردی سے ذبح کردیا گیا یہی صورت حال ملک کے دوسرے شہروں کی ہے بلوچستان اور خیبر پی کے میں بھی ٹمبر اور لینڈمافیا نے بے دردی سے جنگلات کا خاتمہ کردیا گیا یہ سب کرپٹ افسروں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی میں چھپے ان کے سرپرستوںکی مدد سے ہورہا تھا یعنی یہ حالیہ تباہی اور ہزاروں افرادکی ہلاکت فطرت کے منافی عمل کا رد ِ عمل ہے اس کے باوجود اشرافیہ کو اس کا مطلق احساس نہیں کیونکہ نقصان سے دوچار ہونے والے اورجاں بحق ہونے والے عام پاکستانی تھے اور عام شہریوںکی حیثیت ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں جیسی ہے ہم سب کو اس کا ادراک کرلینا چاہیے کہ پاکستان میں ایسے سانحات پر یہ آفات محض قدرتی نہیں یہ لالچی ، سنگ دل اور ہر قیمت پروسائل لوٹے والوںکا طرز ِ عمل ہے اس لئے حکومت کو اب عقل کے ناخن لیناہوں گے کیونکہ طوفانی بارشوں ، کلائوڈ برسٹ، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں،لینڈسلائڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کا عذاب اب کوئی معمولی بات نہیں رہ گئی بلکہ معمول کا کام بن چْکا ہے ملک کی موجود آب اور سیلاب کی تازہ ترین صورت ِ حال کی روشنی میں فیصلہ کن کارروائی ، ٹھوس منصوبہ بندی اور موثرحکمت ِ عملی سے مزید سانحات سے بچاجاسکتاہے اس کے لئے بے ہنگم انداز میں قائم ہونے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے صرف نئے شہربسانے کیلئے ایسے منصوبوںکی اجازت دینی چاہیے مگر اس میں بھی اراضی کی حد مقرر کی جائے کہ زرعی زمین کا اتنے فی صد مختص کیا جاسکتا ہے تاکہ شہریوںکو دودھ ، فروٹ اور سبزیاں وافر میسر آسکیں خوف ناک بات یہ ہے کہ اس سال 2025 کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پاکستان کا حصہ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 1% ہے۔ جنگلات کی کٹائی اورموسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہرسال تواتر سے انسانی المیے ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہورہے ہیں حکومتوں کو اب الفاظ سے آگے بڑھنا چاہیے، کیونکہ یہ آفات اچانک نہیں آتی اس کے ہم خود ذمہ دار ہیںاس کا ہمیں کئی سالوں سے ادراک تھا لیکن حکومتی مشینری نے کیوترکی طرح آنکھیں بندکررکھی تھیں قدرتی آفات سے نپٹنے کیلئے ہماری تیاریاں، پالیسیاں اور عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں پاکستان کا حال بھی عجیب ہے بارشیں نہ ہوں توقحط سالی۔ قوم کو نماز استسقاء کی اپیلیں بارشیں ہونے لگیں تو پورا ملک ڈوب جاتاہے اس سال لاہور،کراچی ، اسلام آباد، راولپنڈی اور جنوبی پنجاب کا جو حشرہوااس کی تفصیلات میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس پس منظر میں ہماری ترجیحات میں یہ کام اب ترجیحی بنیادوںپر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے محفوظ رہاجائے پورے ملک میں 1ـجنگلات کا بے دریغ،بلاجواز کٹا ئی بند ہونی چاہئے۔ 2ـدریاؤں، ندی نالوں اور سیلابی راستوں کی نشاندہی کی جائے اور اس کیلئے رائے عامہ کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے سب سے بڑھ کر نشان دہی والے علاقوں میں ہرقسم کی رہائشی و کمرشل سرگرمیوں پر پابندی عائدکردی جائے اور اس پر سختی سے عمل بھی کروایا جائے۔3ـماحولیاتی ماڈلنگ ، سیلاب کی پیش گوئی اور سیلاب کے انتباہ کا نظام مؤثرہونا چاہئے جوکہ ڈیجیٹل دور میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں اس لئے سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے جو سب سے سستا اور بہترین ہے۔ 4ـ قدرتی آفات کے وقت آفت زدہ علاقوں میں ریسکیو اور ریسپانس کی ایپ ہونی چاہئے اس کیلئے1122جیسا ادارہ قائم کیا جاسکتاہے۔ 5ـ شمالی علاقہ جات، تفریحی مقامات اور دور دراز میں جانے والے سیاحوں کی ممکنہ طور پر سیلابی علاقوں میں آمدورفت مانیٹر ہو وہاں قیمتوںکو کنٹرول کرنے اور ان سے بدتمیزی کرنیوالے دکانداروں اور ہوٹل انتظامیہ کا سختی سے محاسبہ کیا جائے ان اقدامات سے سیاحت کو مزید فروغ دیاجاسکتاہے۔6ـپلوں،ہیڈز، سڑکوں اور دیگر تعمیرات کے سٹینڈرڈ اور کوڈ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے اپ گریڈ کیا جائے اور اس کے لئے سالانہ بنیادپرپراگرس مین ٹین کی جائے۔ 7ـ قدرتی اورموسمیاتی آفتوں سے بچاؤ سے منسلک تمام محکموں / افسروں کا آپس میں رابطے کو مزید فعال بنایا جائے اور ان محکموں میں کام کرنے والے فیصلہ سازوں اور کارکنان کی موسمیاتی تبدیلیوں کی جدید سائنس پر تربیت اور کیپیسٹی بلڈ کرنی چاہئے ۔ 8۔موسم کے بدلتے ہوئے رحجان ،عالمی اداروں سے موسمیاتی معلومات کو موجودہ عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی انتہائی ضرورت ہے 9۔قدرتی آفات سے نپٹنے ، موسم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر متاثرین کی مدد اور بحالی کیلئے ایک ہمہ جہت تنظیم کی ضرورت ہے غیرممالک میں توجانوروںکو بچانے کیلئے ائیرسروسزکا بہترین انتظام ہے جبکہ پاکستان میں سیلابی ریلوں میں پھنسے، آتشزدگی میں گھرے اور قدرتی آفات کے متاثرین امداد آتے آتے جان سے گزرجاتے ہیں متاثرین کو بچانے کے منصوبوں کیلئے فنڈز مخصوص کئے جائیں۔ 10۔عوامی سطح پرموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کیلئے شعور بیدار کرناچاہئے اور عوام الناس کی تربیت کرنی چاہئے خراب موسم میں سیاحت پر پابندی کو مؤثربنانے کی ضرورت اور اہمیت کے پیش ِ نظر سفری پابندیاں عائد کرکے لوگوںکو ہلاکس سے بچایا جاسکتاہے یارکھیں بارشوں کے بپھرے پانی ، طوفانی بارشوں ، کلائوڈ برسٹ، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں،لینڈسلائڈنگ کے دوران کیچڑ اور پتھروں کا عذاب فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے اس لئے کبھی قدرت کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے جنگلات کی بے ہنگم کٹائی، بااثر شخصیات کی دریائوں کے کنارے ہوٹلوں، فارم ہائوسز اور گھروںکی تعمیر اور راستوں قبضے کرنا بڑی تباہی کا سبب ہے یہ قدرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ ایسے عناصرکیخلاف ایکشن لے دریائوں اور نہروںمیں سیلابی ریلوںسے نمٹنے کیلئے ہر شہر میںماضی کی طرح تالاب، نئے ندی نالے اور چھوٹی نہریں قائم کی جائیں تاکہ سیلاب کا زور توڑنے کیلئے متبادل ذرائع میسر آسکیں اور لوگوںکو تباہی سے محفوظ رکھنے کی تدبیرکی جاسکے اور جس طرح بھارت نے اپنے دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈیمزبناکر نہ صرف پانی کو کنٹرول کرکے اپنے لئے مفید بنادیاہے بعینہ ہم بھی چھوٹے چھوٹے آبی ذخائز بناکر تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں قوم پرست جماعتوں نے کالاباغ ڈیم کو متنازعہ بناکر پاکستان کے ساتھ بہت ظلم کیاہے حکومت کو اس کا متبادل بھی سوچناہوگا کم کپیسٹی کے درجنوں ڈیم اس مسئلے کا حل ہے دوسرا سیلاب سے نبرد آزما ہونے کیلئے پورے ملک میںشجرکاری کی مربوط مہم کا آغازکیا جائے مصنوعی جنگلات لگائے جائیں اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

Exit mobile version