عرب اسلامی کانفرنس میں اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کو پسِ پشت ڈالنے یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے خطے میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ اس تنازع کو حل کیا جائے اور اہل فلسطین کو ان کا حق دیا جائے۔ غزہ کی پٹی میں فوری اور پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے غزہ میں مصر کی جانب سے امداد کی ترسیل کی کوششوں کو سراہااورغزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور وہاں فوری و ہنگامی بنیادوں پرخوراک، ادویات اور امدادی اشیا کی ترسیل پر پابندی اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔الخدمت فاو¿نڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نے ملاقات میں بتایا کہ ا لخدمت فاو¿نڈیشن نے ایک ہزار ٹن سامان غزہ پہنچا دیا۔امدادی سامان کی مالیت ڈیڑھ ارب روپے ہے ۔مزید ایک ہزار ٹن رمضان سے قبل تک ارسال کریں گے ۔صورتحال خراب ہونے کے فورا بعد غزہ میں پانی، خوراک اور طبی امداد کے لیے الخدمت فاو¿نڈیشن نے غزہ میں موجود فلسطینی اور ترک اداروں کے تعاون سے وہاں ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں اور سکولوں میں قائم کیمپوں میں پکے پکائے کھانے کی تقسیم کا کام شروع کیاہے۔الخدمت فاو¿نڈیشن نے قاہرہ میں کیمپ آفس اور وئیر ہاو¿س قائم کیا ہے۔ جہاں سے غزہ کے لیے ٹریلروں پر 250 ٹن فوڈ پیکج بھجوایا، جو 10 ہزار خاندانوں کے لیے ایک ماہ کے لیے کافی ہوگا۔ بعد میں روزانہ تقریبا ایک سو ٹرک/ ٹرالر مصر کے رفح بارڈر کے راستے اشیائے ضرورت (عالمی اداروں مثلا WHO وغیرہ کے توسط سے غزہ کے لیے جارہا ہے۔مصر میں امدادی سامانEgyptian ریڈ کریسینٹ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے اور غزہ میں وہاں کا ریڈ کریسینٹ وصول کر کے متاثرہ مقامات و ہسپتالوں میں پہنچاتا ہے۔ ایک اہم کام الخدمت فاو¿نڈیشن نے کیا کہ پاکستان سے مصر تک NDMA کی مدد سے ائیر کارگو اور سمندر کے رستے امدادی سامان بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا اور اب تک 5 ائیر کارگو العریش، ایک اردن اور آج ایک بحری جہاز کے ذریعے ادویات، تیار کھانا، خیمے، ترپال، بے بی کٹس، ہائی جین کٹس اور ونٹر پیکج بھجوائے جا چکے ہیں۔31 مارچ تک انشاءاللہ مزید 1 ہزار ٹن امدادی سامان غزہ پہنچایا جائے گا۔ فلسطین کے موجودہ حالات کے باعث پاکستان میں زیر تعلیم فلسطینی طلبہ کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔ الخدمت فاو¿نڈیشن نے فلسطینی طلبہ کی معاونت کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کیا ہے اور تعلیمی اداروں کی فیس، ہاسٹل و دیگر اخراجات کی مد میں وظائف کا اجراءشروع ہو گیا ہے۔ غزہ کے طلبہ و طالبات کی تعلیمی معاونت کی فراہمی کا سلسلہ بھی الخدمت شروع کر رہی ہے۔ الخدمت کی جانب سے غزہ کےلیے 3 ایمبولینس اور 1 ہیلتھ یونٹ 9 مارچ کو غزہ کےلیے روانہ کیا جا رہا ہے جبکہ دیگر ایمبولینس جلد روانہ کی جائیں گی۔نیز فیلڈ ہسپتال کی ورکنگ مکمل کر لی گئی ہے اور اجازت ملنے پر الخدمت اور پیما کے ڈاکٹرز غزہ روانہ ہوں گے۔ رہاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ جنگ بندی کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر فوری ‘سیز فائر’ کروایا جائے۔ الجزائر کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں تیرہ ووٹ آئے جبکہ برطانیہ نے ووٹ کا استعمال نہیں کیا اور امریکہ نے اس کو ویٹو کر دیا۔ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک جنگ بندی کے لیے پیش کردہ یہ تیسری قرارداد تھی جسے امریکہ نے ویٹو کیا ہے۔عالمی عدالت انصاف کا اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دینا قابل تحسین ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فیصلے کو عملاً نافذ کیا جائے اور اسرائیلی حکمرانوں کو عملی طور پر سزا دی جائے۔ اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے۔ غزہ اور دیگر کئی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اسرائیلی دہشت گردوں نے ہزاروں فلسطینی بچے، مسکراتی کلیاں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی ہیں۔ ہسپتالوں، مساجد، پناہ گزین کیمپوں اور تعلیمی اداروں پر بارود برسا کر اسرائیل نے ظلم کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ جب تک عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوگا، اسرائیل اپنی بربریت سے باز نہیں آئے گا۔ اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بننے والے مسلم حکمران بھی اسرائیل کے ساتھ ان مظالم میں شریک ہیں۔ امریکا اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے حکمران اسرائیل کی پشت بانی کررہے ہیں جس کی وجہ سے شکست خوردہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر بمباری کررہا ہے ۔امریکی صدر جوبائیڈن،فرانسیسی صدر امانویل ماکروں، جرمن چانسلراولاف شولز،اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی اور برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے مشترکہ اعلامیئے میں کہا کہ ہم فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن حماس فلسطینی عوام کو مزید دہشت گردی اور خونریزی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔اسرائیل کے لیے امریکی حمایت صرف دو طرفہ امور تک محدود نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر امریکہ نے بارہا اسرائیل کے حق میں اپنی ویٹو طاقت کا استعمال کیا ہے اور فلسطینی علاقے کے کچھ حصوں پر اس قبضے کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں سے بچایا ہے جسے اقوامِ متحدہ غیرقانونی قرار دیتی ہے۔سان فرانسسکو یونیورسٹی کے سینٹر آف مڈل ایسٹ سٹڈیز کے بانی پروفیسر سٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخ میں امریکہ نے 80 سے زیادہ بار ویٹو کا حق استعمال کیا جن میں سے نصف اسرائیل کو بچانے کے لیے تھے۔ کئی بار امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔‘دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اسرائیل سب سے زیادہ امریکی وسائل حاصل کرنے والا ملک ہے۔ امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 1946ءسے 2023 ءتک امریکہ نے اسرائیل کو 260 ارب ڈالر کی امداد دی جس میں سے نصف عسکری امداد تھی۔