Site icon Daily Pakistan

فلسطین! اسرائیلی قتل عام

اسرائیل کے لوگ ابھی گہری نیند سے بیدار نہیںں ہوئے تھے کہ اچانک حماس نے سات سو میزائیلوں سے حملہ کر دیا اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ آٹھ روز سے جاری ہیے۔ اسرائیل کے کئی کمانڈرز حماس کی قید میں ہیں اور انہیں الگ الگ مقام پر رکھا گیا ہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ امریکی صدر نے کہا ہم چٹان کی طرح اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حماس کے حملے سے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ختم ہو گیا اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد بھی ناکام ہو گئی۔ امریکہ تو اسرائیل کا ساتھ دے رہاہے کیونکہ اسی نے مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام سے فلسطین کے دل میں خنجر گھونپا تھا۔ سعودی عرب نے کہا کہ یہ صیہونی ایگریشن کا نتیجہ ہیے۔ او آئی سی بھی حرکت مں آگئی ہے اور کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہیے کہ او آئی سی کا فورم اتنا موثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ ہر عرب ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد توسیع پسندانہ پالیسی جاری رکھی ہے کئی نئی یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں۔ عرب اسرائیل وار میں مصر سے غزہ کی پٹی اورصحرائے سینا چھین لیا گیا۔ 1967 میں چھ روزہ جنگ ہوئی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ کپور جنگ شروع ہوئی اور اسرائیل نے صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا۔ 1979 اسرائیل اور مصر کے صدر انور سادات کے درمیان کیمپ ڈیوڈ سمجھوتا ہوا لیکن یوم آزادی کی۔ تقریب میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ 1993 میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا اور فلسطین نیشنل اتھارٹی قائم کی گئی جس کے سربراہ یاسر عرفات بنے۔ 1994 میں اردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ فلسطین کا علاقہ مسلمانوں عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بڑا اہم ہے۔ مسجد اقصیٰ اور دیوار گریہ واقع ہیں یہودی یہاں پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی کر دی ہے فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر اسلحے سے بھرے ہوئے طیارے اور اسلحہ بردار امریکی بحری بیڑا بھی اسرائیل کی مدد کو آ گیا ہے۔ اب تک 1200 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں دو ہزار کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ گلیوں بازاروںمیں لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جا رہے ہیں۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں اسرائیل کی بربریت اس حد تک پہنچ چکی ہیے کہ اسرائیل نے ہسپتالوں پر بمباری شروع کر دی ہے۔ برطانیہ کینیڈا فرانس میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کئے جا رہے ہیں بلکہ پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور مکانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکاہے۔ حماس نے بھی راکٹ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ نے بھی فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کر دیاہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکہ جرمنی یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں روس کے صدر پوٹین چین سعودی عرب ایران شام لبنان کھل کر فلسطین کی حمایت کر رہیے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اس نے فلسطینی شہریوں کا پانی ایندھن اور خوراک بند کر دی ہے۔ لاکھوں فلسطینی بے یارو مددگار اقوام متحدہ کے کیمپوں میں مقیم ہیں۔ دو سال سے جاری روس یوکرین جنگ میں روسی صدر پوٹین اور امریکہ یورپی یونین آ منے سامنے ہیں۔ اب ا سرائیل اور فلسطین جنگ کی وجہ سے حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں۔ امریکہ یورپی یونین اور اس کے حواری ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ روس چین سعودی عرب شام لبنان متحدہ عرب مارات فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں یو اے ای نے تو فلسطین کی مالی امداد کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ مشرق وسطی کے ممالک اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے اور یو اے ای نے اسرا?یل کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات بحال کر لئے تھے۔ اور مبینہ طور پر سعودی عرب کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کی ترغیب دلائی جا رہی تھی۔ جی ٹونٹی اجلاس منعقدہ دہلی میں چین کی ون روڈ ون بیلٹ کی طرز پر ایک راہداری منصوبے کا افتتاح کیا یہ سڑک بھارت سے شروع ہو کر مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سے ہوتی ہوئی یو اے ای تک جائے گی۔ اب تجارتی سامان کے کنٹینر نہر سویز کے طویل راستے کی بجائے اس راہداری سے گزریں گے۔ اس راہداری منصوبے میں یو اے ای سے اسرائیل تک ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہیے۔ اسرائیل فلسطین جنگ سے ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا کیونکہ عرب ممالک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین دو سال سے یو کرین جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں اب اسرائیل فلسطین جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ان کے لئے دونوں محاذوں پر لڑنا مشکل نظر آرہا ہے اگر یہ جنگ زیادہ دیر جاری رہی تو تیسری عالمی جنگ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اور اس میں ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہو سکتے ہیں کیونکہ اسرائیل کلسٹر بم تو پہلے ہی استعمال کر رہا ہے۔اسرائیل وحشیانہ کاروائیوں پر اتر آیا ہے وہ اب ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنا رہاہے اسے معلوم ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اس کے ساتھ ہیں اور عرب ممالک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ پاکستان نے فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور دفتر خارجہ نے جنگ بندی پر زور دیا ہے۔بین الاقوامی امن کی خاطر یو این او کو آگے آ کر جنگ بندی کروانی ہو گی۔

Exit mobile version