Site icon Daily Pakistan

فلسطین کی آزادی تک جنگ جاری رہے گی

riaz chu

حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ صالح العاروری نے کہا ہے کہ اسرائیل سے جنگ صرف ایک راو¿نڈ ہے، کیونکہ دشمن فلسطینیوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آیا۔ فلسطینی عوام کی آزادی اور خود ارادیت لینے کا اصولی حق ملنے تک جنگ جاری رہے گی۔ حالیہ لڑائی نے فلسطینی قوم کو نیا حوصلہ دیا۔ صالح العاروری نے حماس اسرائیل تنازعے کی شروعات بارے بتایا کہ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ قابض یہودی فوج عبرانی تعطیلات کے بعد ہم پر بڑا حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور اسکے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ اس لیے ہم نے ا±ن سے پہلے ہی جنوب میں اسرائیلی ملٹری ڈویژن کی قیادت کو وطیرہ حیرت میں ڈال دینے والے  ایک تیز ترین اور  تباہ کن حملے کو  ترتیب دے کر ان پر وار کیا ہے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے غاصب یہودیوں کی پوری غزہ ڈویژن ہمارے سامنے ڈھیر ہو گئی۔صالح العروی، جنہیں صالح محمد سلیمان العروی اور صالح سلیمان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ اکتوبر 2017 میں، وہ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب رہنما منتخب ہوئے ۔ العروری مغربی کنارے میں حماس کی فوجی کارروائیوں کو ملی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ القسام بریگیڈ کا عسکری منصوبہ قابض یہودی فوج کی غزہ ڈویژن کو نشانہ بنانا اور صرف ان  قابض یہودی فوجیوں سے لڑنا تھا۔القسام بریگیڈ کی قیادت کی طرف سے خصوصی ہدایات تھیں کہ قابض یہودی فوج کی غزہ ڈویژن پر حملہ کیا جائے، جو کہ ہمارے لوگوں کے خلاف تمام جرائم کی ذمہ دار ہے اور ہم حیران ہیں کہ یہ متکبر یہودی فوج  صرف 3 گھنٹے سے بھی کم وقت میں، ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے ڈھیر ہو گئی ۔القسام بریگیڈ کے صرف 1,200  ارکان صہیونی بستیوں میں داخل ہوئے اور ہمارے تصور سے بھی کم وقت میں صہیونی فوج کی غزہ ڈویژن کو شکست دبکر اس کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ جب یہودی فوج کی غزہ ڈویژن تباہ ہو گئی تو یہاں غزہ کے عام شہری داخل ہوئے اور ان کی غاصب آباد کاروں سے جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی عام شہری نشانہ بنے۔ اس سارے عمل کے دوران یہودی فوج نے بستیوں میں اپنے شہریوں کو بچانے کےلئے کسی قسم کی کوئی مداخلت کرنے کی ہمت اور زحمت تک نہیں کی ۔ ہمارا دفاعی منصوبہ ہمارے اس اقدامی منصوبے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور اس بات کا قابض یہودیوں کو بھی پورا احساس ہے۔حماس لیڈر کا کہنا تھا کہ دشمن کی طرف سے کی جانے والی ہر طرح کی کارروائی کےخلاف ہمارے پاس ایک مکمل منصوبہ بندی موجود ہے جس کے تحت ہمیں اپنے لوگوں کا دفاع کرنا ہے اور مزاحمت کرنا ہے۔ ہمیں دشمن پر مکمل فتح حاصل کرنے کے علاوہ اس جنگ کا اور کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ ہمارے سامنے تمام آپشن کھلے ہیں اور ہمارے پاس تمام شعبوں میں اضافی افرادی قوت موجود ہے۔ حماس عام شہریوں اور قیدیوں کو نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ ہم جنگ کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتے ہیں۔ القسام کے کمانڈر انچیف ابو خالد الدیف کی سب کو خاص ہدایات ہیں کہ بچوں اور خواتین کو کسی قسم کا  نقصان نہیں پہنچانا۔ غاصب یہودی فوج غزہ کی عام عوام پر اپنی مجرمانہ و وحشیانہ بمباریوں کے ذریعے ، اپنے ہیڈکوارٹر کے دفاع میں اپنی فوج کی بدترین ناکامی کو چھپانا چاہتی ہے۔ غاصب یہودیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ غزہ پر ان کا حملہ، جنگ کو ان کی فوج اور رہنماو¿ں کےلئے تباہی و بربادی  کے پیغام میں بدل دے گا ۔ قابض یہودی فوج ،اب تک حماس کے عسکری ڈھانچے پر کوئی بھی حملہ کرنے میںمکمل ناکام رہی ہے اور صرف غزہ کے  شہری علاقوں اور رہائشی محلوں کو ان کے معصوم رہائشیوں سمیت نشانہ بنا رہی ہے۔ابھی جو کچھ ہو رہا ہے یہ ماضی سے جاری طویل جنگ کا ایک نیا دور ہے جس کا ہدف ا±س غاصب یہودی دشمن کے خلاف مزاحمت ہے جس نے ہماری سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اور یہ جنگ فلسطین کی آزادی کی جنگ ہے۔ حماس اسرائیلی شہریوں اوریرغمالیوں کے ساتھ عالمی قوانین کے مطابق کارروائی کا پابند ہے۔ ہم امریکا اور فرانس سمیت ایسے تمام ممالک سے کوئی امید نہیں رکھ رہے۔ امریکا، فرانس اور دیگر ملکوں کے شہری اسرائیلی فوج کی وردیاں پہن کر جنگ میں شریک ہیں۔ یرغمال بنائے گئے بہت سے اسرائیلی فوجی امریکی اور فرانسیسی شہری نکلے۔ مغربی دنیا نے اسرائیل کی عام شہریوں کے قتل عام سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ فلسطین تمام مذاہب اور نسلوں کی سرزمین سمجھی جاتی ہے۔ فلسطین میں تمام مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ خطہ فلسطین صدیوں تک مذہبی جنگوں سے پاک رہا، مذہبی شدت پسندی کی داغ بیل مغرب نے ڈالی۔ مغرب ہم پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگاتا ہے، لیکن وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ ہمارے خلاف دشمن کی یہ جنگ مکمل طور پر ہمارے عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر مشتمل تھی ۔ امریکی ہم سے اخلاقیات کی بات کرتے ہیں جبکہ ان کے سامنے یہودیوں نے ایک پوری فلسطینی قوم کو ختم کر دیا ہے ، اس کی سرزمین پر ایک ناجائز ریاست قائم کی ہوئی ہے ، اور عام لوگوں کو کیمائی بموں سے مار رہے ہیں۔ فاشزم ، نازی ازم، اور تمام وحشیانہ نظریات جنہوں نے کئی قوموں کی نسل کشی کی ہے وہ سب مغرب ہی سے آئے ہیں نہ کہ ہمارے خطے سے۔ ہمارے خطے سے تو مذاہب کا ظہور ہوا ہے۔ امریکی اور مغربی موقف صرف فلسطین پر یہودی قبضے کی حمایت کرنے اور ہماری زمین اور حقوق کو غصب کرنے والے یہودیوں کے  تمام سابقہ جرائم کی توثیق پر مبنی ہے۔

Exit mobile version