Site icon Daily Pakistan

لخت جگربرےگےڈےئر حمادلطےف ”رب سوہنے دے حوالے“

”رب سوہنے دے حوالے“موت سے قبل دوستوں کیلئے اس کے آخری الفاظ تھے۔ وہ اےک پےدائشی فوجی تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی سب سے منفرد حاضر دماغ بذلہ سنج خوبصورت سا بچہ تھا۔ اپنی بات سمجھانے کےلئے اس نے اپنی الگ زبان بنائی ہوئی تھی۔ سرما کے ملگجے موسم مےں مظفرآباد کے پہاڑ برف کی چاندی اوڑھ لےتے تو وادی ڈےپ فرےزر کی طرح ٹھٹھر جاتی۔ وہ سکول بس سے اترتے ہی بستہ ڈےوڑھی مےں پھےنکتا اور طاقتور آواز سے چےختا امی مےرے چھلکے اتارونا ”اتنے زےادہ کپڑے پہنا دےتی ہےں۔ تعطےلات مےںسارے کزن نانا کے گھر مےں اکٹھے ہوتے تو گھر کی چھت پر ےا لان کے کسی کونے مےں شےشے کی بوتل مےں مٹی کا تےل ڈال کر ماچس سے دھماکہ کرتا تومحلے کے بچے اپنے اپنے گھر کی چھتوں پر چڑھ کر آوازے کستے حماد نے آج کونسا نےا تجربہ کےا ہے۔ بڑی بہن جوےرےہ کو جو مےٹرک مےں تھی کلام اقبال سے گہری وابستگی اور عقےدت تھی۔ وہ جو بھی اشعار اس کے سامنے پڑھتی اسے زبانی ےاد ہو جاتے۔ چار برس کی عمر مےں اسے نےلم پبلک سکول مظفرآباد مےںداخل کرواےا گےا۔ چند ہی دنوں مےںاساتذہ اور طلبہ مےں اس کی کلام اقبال پر دسترس کی دھوم مچ گئی۔ سکول کی پہلی سالانہ تقرےب مےں اسے کلام اقبال پڑھنے کے لئے بلا ےا گےا۔ تقرےب کے مہمان خصوصی صدر آزاد کشمےر جنرل محمد حےات خان تھے۔ ننھے حماد نے مترنم آواز مےں پڑھنا شروع کےا ۔
کھول آنکھ زمےں دےکھ فلک دےکھ فضا دےکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دےکھ
اتنے مےں فضا مےں اےک فوجی ہےلی کاپٹر فضا مےں چکر لگانے لگا، ننھے حماد کی گردن آسمان کی طرف اس ہےلی کاپٹر کے ساتھ ساتھ گھوم رہی تھی اور کلام اقبال بھی زبان پررواں تھا۔ حاضرےن محفل ننھے بچے کی اس ادا سے بہت محظوظ ہو رہے تھے۔ کلام اقبال ختم ہوا تو ہال تالےوں سے گونج اٹھا۔ صدر آزاد کشمےر نے کھڑے ہو کر اسے گود مےں اٹھا لےا اور خوب پےار کےا اور دعائےں دےں ۔ وہ دوسری جماعت مےں تھا تو مےری تعےناتی بحےثےت ضلعی تعلےمی افسر کوٹلی مےں ہو گئی۔اس کا عزم صمےم اس قدر اٹل اور پختہ تھا کہ اپنا سکو ل چھوڑ کر مےرے ساتھ کوٹلی جانے سے صاف انکار کر دےا۔ اس وقت اس کی عمر پانچ سال تھی۔ ہم نے مادر علمی کے ساتھ اس کی گہری وابستگی کے آگے ہتھےار ڈال دئےے اور وہ جوےرےہ باجی کے ساتھ اپنے ابو جی کی نگرانی مےں مظفرآباد ہی رہ گےا جبکہ بڑا بےٹا جواد جو اس وقت جماعت ہفتم کا طالب علم تھا مےرے ساتھ کوٹلی ہائی سکول مےں منتقل ہو گےا۔ باپ کی سرپرستی مےں اسے نماز پنجگانہ قرےب کی فوجی مسجدمےں ادا کرنے کی عادت پڑ گئی ۔ اےک دن سخت سردی مےں لحاف اوڑھ کر گہری نےند سوےا ہوا تھا۔ لطےف صاحب بارش کی چھوٹی چھوٹی بوندوں مےںفجر کی نماز کےلئے اکےلے ہی چلے گئے۔ معاً اس کی آنکھ کھلی تو شب خوابی کے ہلکے لباس مےں روتا ہوا ننگے پاو¿ں ہی سڑک پر دوڑتا مسجد پہنچ گےا۔ نمازےوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لےا۔ پےار سے وضو کراےا اور ا گلی صف مےں نما ز مےں شامل کر لےا۔ اسکے ارادوں کی پختگی او ر غےرمعمولی صلاحےتےں دےکھ کر ہم نے اسے مظفرآباد کے قرےب ترےن شہر اےبٹ آباد سکول اےنڈ کالج مےں داخلے کا ارادہ کےا۔ کسی مغالطے کی وجہ سے ہمےں پہنچنے مےں اےک دن کی تاخےر ہو گئی، داخلے بند ہو چکے تھے اور کوئی گنجائش نہ تھی۔ ہم نے پرنسپل طارق صاحب سے درخواست کی کہ بچے کا ٹےسٹ لے لےں۔ انہوں نے نےم دلی سے انگرےزی گرائمر کے کلئے پوچھے جو اس نے فر فر بتا دئےے پھر فرماےا پانچ منٹ مےں ےوم پاکستان پر اےک پےراگراف لکھ کر لاو¿۔ پانچ منٹ مےں اس نے کاغذ پرنسپل صاحب کے ہاتھ مےں تھما دےا۔انہوں نے پڑھنا شروع کےا لکھا تھا۔
اےک پوری صدی ، روز و شب مستقل
اہل فکرونظر اور ارباب فن
آپ اپنی اٹھائے ہوئے سولےاں
تنگ و تارےک راہوں پہ چلتے رہے
فاصلے قربتوں مےں بدلتے رہے
اور پھر ےہ وہی صبح ہے جس کے خورشےد کو
ہم نے دےکھا ابھرتے ہوئے دوستو
آبرو کی قسم، بستےوں کی قسم
اپنی جلتی ہوئی کھےتےوں کی قسم
اپنی لٹتی ہوئی عصمتوں کی قسم
دودھ پےتے شہےدوں کے خوں کی قسم
پندرہ لاکھ لاشوں کے انبار سے
اے صبح وطن تےری سرحد پہ آئے ہےں ہم
تےری عظمت پہ پھر سر کٹائےں گے ہم
تےرے کشمےر کو تےرے دلگےر کو
پنجہ دشمناں سے چھڑائےں گے ہم
تےرے ماتھے کا جھومر بنائےں گے ہم
تےری مٹی مےں سورج اگائےں گے ہم
تےرا پرچم فلک تک اڑائےں گے ہم
پرنسپل صاحب کا رنگ متغےر ہو گےا تھا، انہوں نے کاغذ تہہ کر کے جےب مےں ڈالا اور پےار سے حماد کے سر پر دست شفقت پھےرتے ہوئے کہا آپ نے شاعر کا نام نہےں لکھا۔اس نے کہا ےہ نظم امی نے ےوم پاکستان پر اساتذہ کی اےک تقرےب مےں پڑھی تھی۔ شاعر کا نام نہےں بتاےا۔ مجھے بھی حےرت ہوئی شاعر کا نام تو مجھے بھی ےاد نہےں تھالےکن کشمےر والے اشعار کا اضافہ ہم نے خود کےا تھا۔ پرنسپل ہم تےنوں کو لے کر ادارے کے بانی اور سرپرست اعلیٰ انگرےز ماہر تعلےمئکےچ پول کے پاس لے گئے۔ ان کے سامنے کاغذ کھول کر انگرےزی ترجمے کے ساتھ سارا احوال سناےا۔ اس ادارے کی رواےت تھی کہ نئے آنےوالے بچوں کو اےک سال پےچھے داخلہ دےتے تھے تاکہ ان کی بنےاد ان کے اپنے معےار کے مطابق استوار کی جا سکے۔ مسٹر کےچ پول نے حماد کےلئے ےہ شرط نرم کر کے چھٹی جماعت مےں داخل کرنے کا حکم صادر فرماےا۔ اس طرح دس سال کی عمر مےں اس نے اپنی خودمختار زندگی کا آغاز کر لےا۔ حماد جوش ملےح آبادی کا تحرےر کردہ سورة الرحمان کا منظوم ترجمہ اپنی روح کی پوری قوت سے اپنی خوبصورت آواز مےں گاتا تھا۔ آغاز اس طرح تھا۔
اے فنا انجام انساں کب تجھے ہوش آئے گا
تےرگی مےں ٹھوکرےں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا
کےا کریگا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتےں جھٹلائے گا
ےہ منظوم ترجمہ مکمل سورة رحمان کے اعتبار سے خاصا طوےل تھا لےکن محفل مےں اےک سحر سا طاری ہو جاتا۔ اس نظم کی مقبولےت کا ےہ عالم تھا کہ کوٹلی کے سکولوں کالجوں اور دےگر تقرےبات مےں حماد اگر مےرے ساتھ موجود ہوتا تو اسے بطور خاص سٹےج پر بلاےا جاتا ےا وہ خود ہی اعتماد کے ساتھ سٹےج پر چڑھ جاتا۔ اس طرح اس کا اےک اےک لفظ جوش ملےح آبادی کی مغفرت اور جنت کی شہادت بن گےا۔ مےٹرک کا امتحان دےنے کے بعد حماد گھر آےا تو مظفرآباد تحرےک آزادی کشمےر کے ولولہ انگےز ماحول مےں سرشار تھا۔ 1989ءمقبوضہ کشمےر کے خوبصورت نوعمر چاند چہرے جوق در جوق نام نہاد کنٹرول لائن کی عارضی سرحد کو توڑ کر کشمےر کے دونوں حصوں کے عوام اور کشمےر دھرتی کو ےکجا کر کے حق خود ارادےت کا علم بلند کر چکے تھے۔ اسی دوران روسی افواج کی مہم جوئی کے خلاف افغان جہاد کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ پوری امت مسلمہ اس کے حق مےں متحد اور ےک زبان تھی۔ اس فوج کشی سے پاکستان کی سالمےت کو بھی شدےد خطرہ تھا کےونکہ گرم پانےوں تک روس کی رسائی کے لئے سقوط کابل کے بعد اگلا ہدف پاکستان ہی تھا۔ اولےن مرحلے مےں دنےا ےہ حقےقت نہ سمجھ سکی کہ مسلمان کے دل و دماغ مےں جذبہ شوق شہادت سما جائے تو پھر نفع و نقصان اور نتائج و عواقباس کا مطمع نظر نہےں رہتے۔ ہمارے ساتھ بھی ےہی کچھ ہوا۔ افغانستان اور کشمےر کی گلےوں مےں بہتے ہوئے خون کا خراج کوئی اور وصول کررہا تھا۔ جذبہ جہاد سے سرشار کشمےری لڑکے افغان جہاد مےں شامل ہونے کےلئے خوست کے محاذ پر چلے گئے تو ان مےں حماد لطےف چودھری بھی شامل تھا ۔متعدد لڑکوں نے جام شہادت نوش کےا۔ ےہ تےن ماہ بعد گھر لوٹاتو سوکھ کر کانٹا ہو گےا تھا۔ جسم زخموں سے چور تھا۔ اس دوران خےبر پختونخواہ تعلےمی بورڈ کا مےٹرک کا نتےجہ بھی آ گےاجس مےں اس نے اعلیٰ فرسٹ ڈوےژن کے ساتھ نماےاں پوزےشن حاصل کی تھی۔
(……..جاری ہے)

Exit mobile version