Site icon Daily Pakistan

لغواور بے بنیاد الزم تراشی سے گریز ضروری ہے

انتخابات کی ساکھ پر سوالات کا سلسلہ تھمنے نہیں پا رہا، ہارنے والے ہر ملک میں پولنگ کے عمل میں دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات لگاتے ہیں لیکن یہاں پاکستان میںان الزامات کی تان ٹوٹ ہی نہیں رہی ۔ اس حوالے سے غم و غصے کا اظہار سمجھ تو آتا ہے لیکن اس میں بلاجواز الزام تراشی اور ساتھ دھمکیاں سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ جیسے مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز کھل کر پریس کانفرنس میں دے ڈالیں ہیں۔ملک کی تاریخ میں کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس پر شکوک و شبہات، دھاندلی، بدعنوانی کے الزامات نہ لگائے گئے ہوں۔ 8فروری کے انتخابات بھی اس سے مبرا نہیں۔قانون کا راستہ کھلا ہے اسے اختیار کرنا ہر متاثرہ پارٹی کا آئینی حق ہے ،اور متعلقہ ادارے بھی اس معاملے شفاف تعاون کریں تاکہ ملک میں مزید عدم استحکام کو ہوا نہ ملے۔جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا حصہ بنیں گے نہ وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کو ووٹ دیں گے پارلیمنٹ میں اپنی حیثیت کےساتھ جائیں گے اور کسی بھی پارٹی کےساتھ کوئی اتحاد نہیں کریں گے الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں نا کام ہوگیا ہے موجودہ انتخابات نے 2018کی دھاندلی کا بھی ریکارڈ توڑ ڈالا ہے الیکشن کمیشن غمال رہا اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں بلکہ میدان میں ہوں گے۔یقینا ان کا یہ اشارہ پھر احتجاج اور لانگ مارچ کی طرف ہی ہے۔ایسا احتجاج وہ پہلے بھی کرتے رہیں لیکن انہیں اس کا حاصل وصول کچھ نہیں ہوا تھا اور شاید آئندہ بھی نہ ہو،ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لیں،بلکہ یہاں نون لیگ بھی اپنا جائزہ لے کہ اسے اس الیکشن میں کیا ملا ہے،مانگے کے چراغوں سے وہ ایوان اقتدار میں کچھ روشنی تو کر ہی لے گی لیکن بنیادی طور پر اس سے بھی اس کا سیاسی میدان چھن رہا ہے۔دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کا ایک دعویٰ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور اسی وجہ سے انہیں شکست ہوئی لیکن درحقیقت وہ عوام میں مطلوبہ پذیرائی اور ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، صرف دوسروں کے کندھوں پر پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں ۔ مولانافضل الرحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ضرور ہیں لیکن پاور پالیٹکس کے ڈئنیمکس ہی بدل گئے ہیں۔ روایتی اور گھسی پٹی ہوئی سوچ سے نوجوان نسل بیزار ہو چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ہوں یا دوسرے سیاستدان جو انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھا رہے ہیں، انہیں پاکستان کے عوام در حقیقت مسترد کر چکے ہیں اور یہ اب اپنی شکست کےلئے اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا رہے ہیں، جو ان کےلئے آسان راہ ¿ فرار ہے۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے عوام نے نو مئی کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے لیکن 9 مئی کے مجرم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ انتخابات سے پہلے کھڑے تھے اور کیس بھگت رہے ہیں۔ مولانا کو اپنی شکست کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی پارٹی کے معاملات میں جھانکنا ہو گا، اور دیکھنا ہو گا کہ عوام میں ان کی مقبولیت کیوں ختم ہو رہی ہے،وہ کیا عوامل ہیں، ان کا جائزہ لینا ہو گا یا پھر سراج الحق کی راہ اپنانا ہو گی،خاندانی سیاست سے نکل کر ایک عام ورکرکو بھی عزت دینا ہو گی دیگر پارٹیوں کےلئے بھی یہ ایک سنہری موقع ہے۔مولا نا اور انکی جما عت دراصل پی ٹی آئی کے بیانیے کا مقابلہ ہی نہیں کر سکی اور الیکشن میں سے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا،اب دھاندلی کا الزام لگا کر راہ¿ فرار اختیار کرنا ان کی ساکھ کو مزیدڈبو سکتی ہے۔ مولانا جوڑ توڑ اور غیر جمہوری ساز باز کے ذریعے اپنے سابق اتحاد ”پی ڈی ایم “کی مدد سے ملک کی صدارت سمیت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی ایک بڑی تعداد حاصل کرنا چاہتے تھے جو انہیں نہیں ملیں تو اب وہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول بجا رہے ہیں۔ویسے بھی آہستہ آہستہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں، جن میں جمعیت علما اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)شامل ہیں، کے انتخابی ایجنڈے کو رائے دہندگان نے یکسر مستردکر دیا ہے یقینا یہ ان جماعتوں کےلئے المیہ ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ کہ حالیہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ف) کو قومی اسمبلی میں صرف تین نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو سکی۔ اسی طرح علاقائی سیاسی جماعتیں اور سیاسی اتحاد مثلاً عوامی نیشنل پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی کوئی قابل ذکر فتح حاصل نہ کر سکی۔ حالیہ الیکشن کے نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی رائے دہندگان نے تین سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ہے، جو نئی قومی اسمبلی میںاگلے پانچ سال کےلئے بیٹھیں گی۔
بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کاشکار
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ماورائے عدالت کشمیریوں کے قتل کے واقعات کی تفصیلات شائع کرنے والی ویب سائیٹس کو بلاک کر نے کی دھمکی دے دی ہے ۔22 دسمبر 2023کو بھارتی فوج کے ہاتھوں تین شہریوں کے قتل کی تفصیلات شا ئع کرنے پر بھارتی حکومت نے میگزین کو دھمکی آمیز نوٹس جاری کیاہے۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیریوں کو آئے روز فوجی کیمپوں میں گھسیٹ کر مارا پیٹا جاتا ہے، انکی تضحیک وتذلیل اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم پرعالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی معنی خیز ہے ۔ نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کا غیر انسانی ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، بھارتی فوج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سب پر بازی لے گئی ۔آرٹیکل 370کی منسوخی کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی انسانی حقوق کی پامالی عروج پر پہنچ چکی ہے، ہندوستانی فوج راجوری سیکٹر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی، پونچھ راجوری سیکٹر سے حراست میں لئے جانے والے کشمیریوں کو ہندوستانی فوج نے بےدردی سے قتل کیا۔مودی سرکار نے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے قتل عام پر پردہ ڈالنے کیلئے اپنے افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا ڈرامہ رچایا، پونچھ راجوری سیکٹر میں تعینات بھارتی فوج کے بریگیڈیئر پی اچاریہ، کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔بریگیڈیئر پی اچاریہ راجوری میں راشٹریہ رائفلز کے ایک سیکٹر کمانڈر تھے، تینوں بھارتی افسران کو ہٹانے کا فیصلہ زیر حراست تین کشمیریوں پر تھرڈ ڈگری ٹارچر کی ویڈیوز آرمی کیمپ سے لیک ہونے پر کیا گیا، ان ویڈیوز کو دنیا بھر میں پھیلنے سے بچنے کیلئے مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کو منقطع کیا۔بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا اکاﺅنٹس بھی مودی سرکار کے پروپیگنڈے کے تحت اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگے، بھارتی فوج کے کشمیریوں پر کیے جانے والے تھرڈ ڈگری ٹارچر کی ویڈیوز سے مودی سرکار کا دنیا کے سامنے اصل چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں دن بہ دن بگڑتی صورت حال سے گھبرا کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں اندرونی سکیورٹی کے حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے۔ کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا ملک اب تک انسانی حقوق کی تنظیموں کی ہٹ لسٹ پر نہیں ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کی وسیع پیمانے پر دہشت گردی اس امر کی واضح مثال ہے کہ بھارت بری طرح ناکام ہے اور شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔مودی سرکار نے دغابازیوں کا جو سلسلہ اختیار کر رکھا ہے اس کے اثرات سے دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ہتھیاروں کی خریداری میں مصروف عمل مودی سرکا رکے عزائم انتہائی خطرناک ہیں۔ بھارت کسی بھی طرح کی کشمیریوں کو ان کے اجتماعی مقصد کی پیروی کرنے سے نہیں روک سکتا جس کی وجہ سے انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھائے جو خطے میں کشیدگی کی اصل وجہ اور نتیجہ رہا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر ظالمانہ قبضہ تمام بڑے مسائل کی جڑ ہے۔کشمیری عوام کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنا چاہیے۔

Exit mobile version