Site icon Daily Pakistan

لفظ ‘پاکستان’ کی حرمت کی کہانی۔ایک ماں کی زبانی

،، قید،رہائی،سفر جاری ہے) سے ایک واقعہ قارئین کی نظر ہے۔یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ راقم کی آب بیتی 1992میں باقاعدہ کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔اس آواز نے جو’ شفقت اور ممتا کے جذبے سے بھرپور تھی’ مجھے اس عورت کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا۔وہ ایک دراز قد ادھیڑ عمر عورت تھی اوراس کے چہرے پر بلا کا وقار اور شائستگی تھی۔ میں نے لسی کا گلاس پی کر برتن اسے لوٹا دیے اور وہ خاموشی سے برتن لے کر دوسری طرف بڑھ گئی۔ اس وقت وہ مہر بان عورت کھڑکی کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور تھوڑی دیر مجھے ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے تھے’ جنہیں اس نے اپنے دوپٹے کے پلو سے صاف کیا اور پھر ٹھہری آواز میں گویا ہوئی:”بیٹا! تم یہ سمگلنگ کا گندہ دھندا کیوں کرتے ہو؟ کیا تم لوگوں نے پاکستان انہی غلیظ کاموں کے لئے حاصل کیا تھا؟” اس کے لہجے میں عجیب سی کاٹ تھی جسے محسوس کر کے میں بری طرح چونک اٹھا۔میں چاہنے کے باوجود اسے نہ بتا سکا کہ اے مہر بان ہستی! میں ہر گز سمگلر نہیں ہوں بلکہ اس کی آواز میں غصے کا عنصر نمایاں تھا:”جواب دو۔کیا ہم نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ اس لئے پیش کیا تھا کہ تم لوگ اپنی چند دنیاوی آسائشیں حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی گھٹیا حرکتوں پر اتر آو¿؟” اس کی بات نے مجھے پوری طرح ہلا کر رکھ دیا کیونکہ اس نے لفظ ”ہم” استعمال کر کے اپنی شخصیت کو انتہائی پر اسرار بنا لیا تھا۔ اپنی حالت زار بھول کر اب میری خواہش تھی کہ اس کی شخصیت کی پوشیدہ گتھیاں کسی طرح معلوم ہو سکیں۔میں نے جواب دیا:”ماں جی! میں تسلیم کرتا ہوں کہ سمگلنگ کے دھندے میں پڑ کر میں نے کوئی مستحسن کا م نہیں کیا’ لیکن آپ کے لہجے میں میرے لئے جو حد درجہ اپنائیت ہے اسے محسوس کر کے میں بری طرح الجھن میں پڑ گیا ہوں۔آخر آپ کو مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں محسوس ہو رہی ہے؟” یہ سن کر چند لمحوں کے لئے وہ خاموش رہی’ پھر بولی:”میں صرف انسانیت کے ناطے سے تمہیں سمجھا رہی ہوں ورنہ میری طرف سے بھاڑ میں جاو¿۔اس دوران اس نے چارپائی کھینچ کر کھڑکی کے سامنے کر لی تھی اور اس پر بیٹھ گئی تھی۔ میں نے چند ثانئے توقف کے بعد اس سے پوچھا:”ماں جی! آپ نے اپنی گفتگو کے دوران اردو کے بعض ٹھیٹھ الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ کی باتوں میں جو خلوص اور پیار ہے وہ مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں آپ سے پوچھنے کی جسارت کروں کہ آپ میں ایسی کون سی بات ہے جو مجھے آپ میں کسی ایک آ دمی کی ماں کا چہرہ نظر نہیں آتا بلکہ آپ صرف ”ماں” لگتی ہیں۔ آپ جیسی نفیس خاتون مہندر لعل جیسے حیوان کے ساتھ کیسے زندگی بسر کرر ہی ہے۔” کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ اٹھی اور اس نے کہا:”میں حویلی کا بڑا دروازہ بند کر آوں تا کہ ان کے آنے کا پتہ چل سکے۔” واپس آ کر وہ کچھ دیر بیٹھی سوچوں میں گم رہی پھر کہنے لگی:”بیٹا! میں ان لوگوں میں سے نہیں جو زندگی گزارتے ہیں بلکہ میں تو شائد ان میں سے ہوں جن پر زندگی گزرتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی بات کا سرا کہاں سے پکڑوں۔یادوں کا ایک ہجوم ہے اور ہر یاد پوری عمر پر محیط ہے۔میں مشرقی پنجاب کے ضلع سنگرور کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں راجگڑھ میں پیدا ہوئی۔ اس گاو¿ں کی اکثریت ہندوو¿ں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ پندرہ بیس گھرانے مسلمان تھے۔ میرے والد گائوں کے پرائمری سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ساتھ ہی گاو¿ں کی اکلوتی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ 1947 ء کی تقسیم ہند کے موقع پر میں سولہ سترہ سال کی لاابالی سی لڑکی تھی۔میرا چھوٹا بھائی دس سال کا تھا۔ میں نے گائوں ہی میں والد صاحب سے اردو اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ہمارا چھوٹا سا گھرانہ ہر طرح سے مطمئن زندگی بسر کر رہا تھا۔پورا گاو¿ں میرے والد صاحب کا حترام کر تا تھا’ لیکن شاید یہ خوشیاں زیادہ دیر ہمارے مقدر میں نہ تھیں۔قیامِ پاکستان کے اعلان کے فوراً بعد شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں محض قصہ ماضی بن کر رہ گئیں۔ سالہاسال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ان حالات میں میرے والد نے گائوں کے دوسرے لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا’ لیکن جنونی ہندوو¿ں کو یہ بات بھی گوارا نہیں تھی اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاو¿ں سے مسلح ہندو جتھے وہاں پہنچ گئے اور چشمِ زدن میں تمام مردوں کو تہہ تیغ کر دیا۔نوجوان لڑکیوں کو ان کی مائوں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔آج بھی جب میں اس دلخراش منظر کو چشمِ تصور سے دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ابنِ آدم ذلت کی ان گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔میرامعصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا سہما کھڑا تھا۔جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آ گیا اور گویا مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک دبلے پتلے سے ہندو نے اپنی کلہاری کا زور دار وار اس معصو م کی گردن پر کیا جس سے اس کا سر جدا ہو کر دور جا پڑا۔اس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ (نا پاک) نہ کرتا۔ اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگا جل سے دھو کر پوتر کرنی پڑے گی۔ یہ کہہ کر وہ بھی اس شیطانی کھیل میں شامل ہو گیا۔۔اس عمل میں زندہ بچ جانے والے چند’خوش نصیبوں یا بد نصیبوں میں’میں بھی شامل تھی۔اس کے بعد ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔ آخر سوہن لعل نے مجھے اپنے گھر میں ڈال لیا اور شادی بھی کر لی۔وہ کانگڑہ کے گاو¿ں راسپورہ کا سر پنچ تھا اور بہر حال ایک ہمدرد انسان ثابت ہوا۔شادی کے سات سال بعد سوہن لعل کا سورگباش ہو گیا اور اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کر لی۔ یہاں راجستھان میں بھی ہم نے زمین خریدی ہوئی ہے، اس لئے کچھ عرصہ یہاں مہندر کے پاس رہتی ہوں اور پھر کانگڑہ میں اپنے بچوں کے پاس چلی جاتی ہوں۔سرجیت سنگھ یہاں والی زمین میں مہندر کا حصے دار ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو کر اپنی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو اپنی انگلیوں سے صاف کرنے لگی۔ میں گنگ سا بیٹھا اس کے پر عظمت چہرے کو تکے جا رہا تھا۔ایک سوال جو میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا’ زبان پر آ ہی گیا:”ملکی حالات نارمل ہونے کے بعد آپ پاکستان کیوں نہیں گئیں؟” یہ سن کر وہ خفیف سا مسکرائی اور پھر سنجیدہ ہو گئی:”تقسیم کے کچھ عرصے بعد حالات واقعی نارمل ہو گئے تھے۔میں چاہتی تو پاکستان جا سکتی تھی’ لیکن اس معاملے میں چند باتیں آڑے آئیں ورنہ اس جنت ارضی میں جانے کی خواہش’ جس کے لئے ہم نے لاکھوں جانوں کا بلیدان دیا’ کسے نہیں ہو سکتی تھی؟ میں شروع میں کرب و اذیت کے جس جہنم سے گزری تھی’ اس کے بعد اپنی ہی نظروں میں اتنا گر گئی تھی کہ اپنے آپ کو اس مقدس دھرتی پر پائوں رکھنے کے قابل نہ سمجھتی تھی۔ اس کے بعد میری اولاد ہو گئی اور میں انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر جانے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری بیٹیاں یہاں ساری عمر اچھوتوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جائیں۔میری غیر موجودگی میں ایک مسلمان عورت کی بیٹیاں ہونے کے ناطے ان سے ہریجنوں جیسا سلوک ہوتا۔ ”ویسے جہاں تک پاکستان سے محبت کا تعلق ہے، یہ میرے اور میرے رب کے درمیان معاملہ ہے۔ کیا تم یقین کرو گے کہ اگر میرے بچوں کو کوئی بیماری یا تکلیف ہوتی ہے تو میں لفظ پاکستان پڑھ کر ان پر پھونک مارتی ہوں اور میرا سچا رب میرے اندھے اعتقاد کی لاج رکھتے ہوئے ان کی تکلیف دور کر دیتا ہے”۔ میری ہر سانس میں یہ پوتر نام رچا بسا ہے۔جہاں تک اس وقت پاکستان جانے کاتعلق ہے’ صاف بات یہ ہے کہ اب میں وہاں جانا ہی نہیں چاہتی۔ مجھے معلوم ہے کہ دور کے ڈھول کتنے سہانے ہوتے ہیں۔وہاں جا کر میرا بنایا ہوا حسین خوابوں کا شیش محل یقینا ٹوٹ جائے گا کیونکہ میرے سپنوں کا پاکستان وہ نہیں جو وہاں کے حکمرانوں کا پاکستان ہے۔ میں مورکھ نہیں، مجھے اخباروں اور ریڈیو کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ وہاں پاکستان تو ہے مگر پاکستانی کوئی نہیں۔ کوئی پٹھان ہے تو کوئی بلوچی، کسی کے لئے سندھی اجرک ہی سرمایہ حیات ہے تو کوئی پنجاب کی پگ پر داغ نہ لگنے کو اپنی ساری زندگی کا ماحصل سمجھتا ہے۔تمہیں کیا معلوم کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے روز مجھے اپنا معصوم بھائی کتنا یاد آیا جس کی نازک گردن ہندو بلوائیوں نے ٹوکے کے ساتھ دھڑ سے الگ کر دی تھی۔ اگر تم میرے پاکستان میں کبھی پہنچو تو لوگوں کو بتا نا کہ زمین کا یہ خطہ اتنی ارزاں شے نہیں۔” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔میں کتنی ہی دیر بت بنا اس خاتون کے آئینے میں اپنے چہرے کی سیاہیاں تلاش کرتا رہا۔اس کے سامنے مجھے اپنے قد کی کوتاہی کا شدید احساس ہو رہا تھا۔یہ کہہ کر وہ عظمتوں کی امین ہستی وہاں سے چلی گئی۔اپنی سوانح عمری(‘را’ کے دیس میں اسیری کے نو سال،، قید،رہائی،سفر جاری ہے)سے اقتباس

Exit mobile version