مئی سال2024کے موقع پر آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں نرسز ڈے منایا جارہا ہے۔نرسز کا عالمی دن منانے کا ایک مقصد ان کی بے لوث خدمات اور جذبے کو سراہنا بھی ہے، مگر اب یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اس دن نرسز کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ، ایک انسان اور معاشرے کے کار آمد فرد کے طور پر ان کے بنیادی حقوق بھی اجاگر کیے جائیں۔کوئی شخص خواہ کسی بھی رنگ، نسل اور خطے سے تعلق رکھتا ہو، اس کی عزت اور جان کی حفاظت سب پر لازم ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس کے منفی اثرات نرسنگ جیسے پر امن اور خدمت گار شعبے پر بھی مرتب ہو رہے ہیں کہ مریضوں یا ان کے لواحقین کی جانب سے نرسز پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پھر سرکاری سطح پر نرسز کو جس طرح بہتری کے مواقع فراہم کیے جانے تھے وہ آج تک فراہم نہیں کیے گئے ترقیاں سروس سٹریکچرز تنخواہوں سمیت بہت سے مسائل حل طلب ہیں۔ نرسز کی بہت بڑی تعداد بیرون ملک جا چکی ہے میں نے نرسز کے حالات کا بغور جائزہ لیا ہے سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے نرسز کی ایجوکیشن کے کاغذی منصوبے تو شروع کیے تھے اور سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کلینیکل سائیڈ پر کام کرنے والی نرسز کے لیے کوئی اہم رول ادا نہیں کیا اور سوتیلی ماں جیسا رویہ رواں رکھا وہ دور نرسز کے لیے ایک کھٹن دور تھا اب وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کا دور حکومت ہے شعبہ صحت کے دو وزرا خواجہ عمران نذیر خواجہ سلمان رفیق سیکرٹری صحت علی جان خان سے نرسز کو بہت امیدیں ہیں نرسز کا سروس سٹریکچر افسران کی ٹیبلوں تک محدود ہے نرسز کی بہت بڑی تعداد بیرون ملک جانے پر مجبور ہیں کم تنخواہیں اور سخت ڈیوٹیاں پندرہ مریضوں پر ایک نرسنگ آفیسر کی موجودگی جیسے چیلنج کا سامنا ہے نرسز کے رول اور مشکلات پر پہلے بھی بہت کچھ لکھ چکا ہوں جبکہ کوشیشیں ہیں کے نرسز کے مسائل پر بار بار لکھا جائے پروگرامز کیے جائیں۔ جس کا خمیازہ مجھے بھگتنا بھی پڑتا باز لوگوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے وارڈ میں کام کرنے والی نرسنگ آفیسر کرونا فائٹر ہیں سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی ڈی جی این کی جانب سے چونا لگایا گیا اور ٹیچنگ سائیڈ کی نرسز کو نواز دیا گیا کلینیکل سائیڈ کی نرسز اصل میں ہیروں ہیں انکو انکا حق ملنا انتہائی ضروری ہیں خیر جب کسی کے حق کے لیے بولو تو۔ پھر بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے بات کرتے ہیں نرسنگ ایسوسی ایشن کی بات کروں نرسز لیڈران بہت محنت کررہی ہیں سپیشل اروزینہ منظور بھی بھی کوشیش کر کر کے تھک چکی ہیں مگر ہمت اور حوصلہ رکھے ہوئے کے کسی طرح نرسز کے حالات بدل جائیں حال ہی میں ڈی جی این پنجاب میڈم طاہرہ تسبم تعینات ہوئی ہیں میڈم طاہرہ کا تعلق جنوبی پنجاب سے نرسز کے لیے بہت درد رکھتی ہیں امید ہے میڈم ڈی جی این کے دور میں نرسنگ کے دو شعبوں کالج اور کلینکل سائیڈ میں بہت کچھ کریں گی نرسز کیلئے حالیہ ایجوکیشن پالیسی اور پی این سی کا رول بہت اہم ہے سب سے پہلےنرسنگ ڈائریکٹوریٹ کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کی ضرورت ہے نرسنگ آفیسرز کے سکیل پرموشن بہت ضروری ہے صوبہ بھرمیں کئی سیٹیں جونیئرز کے سپرد کی گئی ہیں اور یہ ہی حالت ہسپتالوں میں ہیں نرسنگ سکول کالجز میں ایک الگ ہی دنیا ہے کلینکل نرسز سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہیں آج جدید دورہے لیکن کلینیکل نرسز کو انکا حق نہیں ملتا پھرنرسز بمقابلہ نرسز کا ماحول بنادیا گیا ہے اگر کسی ایک کو کوئی فاعدہ مل۔ رہا ہوتا ہے تو دوسرا اسکے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشیش کرتا ہے جس سے دوسرے ساتھی پروفیشنلز یعنی کے غیر نرسنگ نرسز کو ہدف تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان پر وارڈ کے کام کا ایکسٹرا بھوج ڈال دیا جاتا۔ ہے جبکہ ہسپتالوں میں نرسز کی تعداد بڑھ رہی ہے صرف لاہور شہر کے بڑے ہسپتالوں کی ہی بات کی جائے تو وہاں پر کافی بڑی تعداد ہے نرسز کی مگر درست سسٹم نہ ہونے پر نرسز کو رائٹس نہیں ملتے آج کے جدید دور میں بھی نرسز کی آواز کو دبانے کی کوشیش کی جاتی ہے اور یہ کوئی باہر سے نہیں آتا ڈرانے یہ اپنے ہی ہوتے ہیں مگر کچھ بہادر نرسز آج بھی موجود ہیں جو اس سسٹم کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں خیر 12مئی کا دن نرسز کے معاشرتی رول میں تجدید عہد کا دن ہے 1998 میں بھرتی ہونے والی نرسز کی ابھی بھی بہت بڑی تعداد ترقیوں کی منتظر ہیں جنکی ترقیاں نہیں ہوئی فرض کریں جو نرسنگ آفیسر 2000میں بھرتی ہوئیں وہ آج بھی سٹاف نرس ہی ہیں کیا یہ ظلم نہیں اپنی زندگیاں دینے والی نرسز آج بھی ترقی سے محروم ہیں جبکہ نرسنگ ڈائریکٹوریٹ کا رول ختم ہوکر رہے گیا ہے وقت کا تقاضہ ہے کے نرسنگ ڈائریکٹوریٹ کو اصل حالت میں بحال کیا جائے اگر بات کی جائے پاکستان نرسنگ کونسل کی تو پاکستان نرسنگ کونسل کا یہ حال ہے کے کئی مثالیں موجود ہیں جن نرسز کی نیو رجسٹریشن یا تجدید ہونی ہے وہ چھے چھے ماہ اپنے رجسٹریشن کے کارڈ کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں اور نوکری کیلئے ایجوکیشن کیلئے پی این سی کارڈ بھی ضروری ہے حکومت پاکستان وزیر اعظم شہباز شریف ککو فوری طور پر ہر صوبہ ہر شہر میں پی این سی رجسٹریشن سینٹر کھولنے چاہیے تاکے نرسز کی بڑی تعداد چونکہ خواتین پر مشتمل ہیں انکو اسلام آباد میں دھکے نہ کھانا پڑے نرسز کے یونیفارم تبدیل ہوچکا ہے مگر عمل درآمد ابھی تک نہیں ہوسکا نرسز کے ڈیوٹی اوقات میں ایک نرس سینکڑوں مریضوں کی نگہداشت کی زمہ دار ہوتی ڈراموں فلموں میں نرسز کے رولز کو جس طریقہ سےاوجاگر کیا جارہا ہے یہ بہت غلط ہے پیمرہ اور فلم سنسر بورڈ کو اس پر ایکشن لینا چاہیے اور نرسز کا ایک بہتر رولز دیکھانے کا پابند کرے کرونا آیا سب بھاگ گئے ہیلتھ پروفیشنلز کرونا کے ڈر سے وارڈ میں نہیں جاتے تھے اگر ہسپتالوں میں جاکر جائزہ لیا جائے تو براہ راست نرسز کام کرتی ہوئی نظر آئیں گی سابق صوبائی وزیر صحت نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کے نرسز کو ڈبل پے دی جائے گی جو آج تک نہ دی جاسکی ہے نرسز نہ ہوں تو ہسپتال نہیں چل سکتے انکو انکا حق دیں کیا ہم ہر سال 12 مئی منائیں گئے اور اسی طرح ہی لالی پاپ دیتے رہیں گئے وزیر اعلی مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلی ہیں اگرسچ میں ہی نرسز کیلئے کچھ کرنا ہے توکرجائیں تاریخ آپکویاد رکھے گی نرسز کے ڈیوٹی روسٹر اوف سالانہ لیو ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکے ہسپتالوں کا نظام مزید بہترہوسکے پہلے ہی ہسپتالوں کا نظام ان نرسز کے آسرے پر ہی رواں دواں ہیں ہر سال 12 مئی آتا ہے ہم بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر نرسز کے پرابلم ختم ہونے کا نام نہیں لیتے حکومت وقت ہی نرسز کے لیے کچھ اچھا کر جائیں نرسز انکو دعائیں دیں گی لیکن پی جی کالج کی پوسٹ آر این کی طالبات سراپا احتجاج ہیں سرکاری ملازمین کا کونسا ایسا قانون ہے کے نرسنگ افسر کا سکیل ہی بدل دیا جائے اور کسی کو جونیئر کلرک بنادیا گیا تو کسی کو سینٹری انسپکٹر جو کے محکمہ صحت کے قانون۔ کے مطابق ڈیپوٹیشن میں پرھنے کے لیے کالج میں زیر تعلیم ہیں محکمہ صحت نے اپنے ہی قانون کی دھجیاں بکیھر دی تاحال نرسز کا احتجاج جاری ہےہم دنیا کے جس خطے میں رہتے ہیں، وہاں نرسز کے مسائل دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں، خصوصا ہمارے یہاں نرسنگ کے شعبے کا کوئی پرسانِ حال نہیں، بلکہ یہ مقدس شعبہ گزرتے وقت کے ساتھ تنزلی ہی کا شکار ہے اور اس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری سطح پر انٹرنیشنل نرسز ڈے کے موقعے پر مکمل خاموشی چھائی رہتی ہے اور نرسزز کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی پروگرام تک منعقد نہیں کیا جاتا۔ پاکستانی نرسز کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دیتی ہے، جو ملک کی نیک نامی کے ساتھ قیمتی زرِ مبادلہ کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں۔ اگر حکومت ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دے، تو وہ زیادہ بہتر طور پر ملک و قوم کی خدمت کرسکیں گی