Site icon Daily Pakistan

ماسی مصیبتے

امریکہ سے ہمارے تعلقات بہت پرانے ہیں اور اس ملک کی بے وفائیاں بھی ان تعلقات کا حصہ ہیں ، یوں کہیے ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام۔۔وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا ،کے مترادف۔ عروج ، زوال کی داستان ہے ۔ امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر دوسرے ملکوں سے تعلقات قائم کرتا ہے اور اگر اس کے مفادات پورے نہ ہورہے ہوں تو انہیں آنکھیں پھیرتے ہوئے دیر بھی نہیں لگتی۔ چند ماہ سے امریکہ نے ہمارے سربراہان کی نہ صرف تعریف شروع کر رکھی ہے بلکہ خوشگوار موڈ کے ساتھ ہاتھ تھامے بھی نظر آرہے ہیں ، امریکی طوطا چشم لوگ ہیں ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔اس بات کو تاریخ کی روشنی میں ہمارے سربراہان مملکت بھی سمجھتے ہیں اور وزارت خارجہ ہمارے تعلقات کی مکمل تاریخ کی وارث بھی ہے ، حال ہی میں اسرائیل نے غزہ میں جو کچھ کیا اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ مغربی ممالک میں اسرائیل کی پالیسیوں اور جنگی جنون کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے جو اب تک جاری ہیں لیکن اسلامی ممالک نے صرف بیانات دینے پر اکتفا کیا کیونکہ اکثریت امریکہ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے اپنی آواز بلند کرنے کو بھی تیار نہ ہوئی ، کسی ملک میں شاید ہی عوامی مظاہرے ہوئے ہوں ، بس نشتن گفتن بر خواستن والی کیفیت ہی رہی۔ اسرائیل ریاست کو بنایا بھی مغربی ممالک اور امریکہ نے اور اس کے قائم کرنے سے لیکر اب تک اس کے مفادات کو بھی یہی دشمنانان مسلم دیکھ بھال کررہے ہیں۔ ریاستی جرائم امریکہ کی پشت پناہی سے ہوتے ہیں۔ اسی ماسی مصیبتے نے دنیا میں امن ، امان کی صورت حال برباد کر رکھی ہے ۔اسلامی ممالک کی طرف غزہ میں جنگ کو روکنے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں جو متفقہ فیصلے ہوئے امریکہ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل سے ملکر بیس نکاتی ایجنڈا ترتیب دیکر اعلان بھی کردیااور حماس کو چار دن کی وقت دیکر کہ اسے مان لیا جائے یا پھر نتیجے کیلئے تیار ہوجاؤ کی تڑی بھی لگادی یعنی ٹرمپ نے سجی دکھاکے کھبی ماری ہے ۔ اس طرز عمل پر ہمارے وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کو کہنا پڑا کہ یہ وہ منصوبہ نہیں جو آٹھ مسلم ممالک نے ترتیب دیا ۔ یہ ہے امریکہ جو آجکل ہمارا قریبی دوست ہونے کی پبلٹسی کررہا ہے ۔ اس کی دوستی اور دشمنی دونوں ہی خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ یہ ملک اصل میں آستین کا سانپ بن کر رہتا ہے جب موقع ملے گا یہ ڈسنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس وقت امریکہ کی پالیسی یہ لگتی ہے کہ اسلامی ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرایا جائے اور پھر اس کے سفارتخانے قائم کئے جائیں جہاں سے ان ممالک کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے بعد اسرائیل کا اثر ،رسوخ بڑھایا جائے ، کچھوے کی چال سے گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کیا جائے ۔ اپنے خواب کی تعبیر اسے کب ملتی ہے یہ اسلامی ممالک کے طرز عمل پر منحصر ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ 29نومبر 1947کو اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا اور مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا ۔ مغربی ایشیا کا یہ ملک بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے ۔ اس کے شمال میں لبنان ، شمال مشرق میں اردن ، جنوب مشرق میں فلسطین ، جنوب میں مصرخلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہے ۔ جنگوں اور معاہدوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کی ریاست کا قیام مغرب اور امریکہ کی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اسرائیل معاشی طور پر اتنا مضبوط ملک بن چکا کہ امریکہ کی معیشت میں بھی اس کا رول نمایاں ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اسرائیل میں شطرنج ایک اہم کھیل ہے بہت سے اسرائیلی گرنٹڈ ماسٹرز ہیں ، ان کھلاڑیوں نے یوتھ ورلڈ چیمپئن شپ بھی جیتے ہے ۔ ہر سال اسرائیل میں ایک بین الاقوامی چیمپئن شپ کا انعقاد ہوتا ہے اسی وجہ سے ان کے دماغ میں شہہ اور مات کا فلسفہ اجاگر رہتا ہے ، چین پر نگا رکھنے کیلئے امریکہ افغانستان کو بھی دھمکیاں دے رہا ہے لیکن افغانی کبھی کسی کے غلام بن کر رہنے کو ترجیح نہیں دیتے ۔ امریکہ اپنی چالوں سے انہیں پھنسانے کی کوشش کرے گا ، دھوکہ دینا امریکیوں کی فطرت میں شامل ہے جیسے یہ میں نے پہلے ذکر کیا آٹھ اسلامی ممالک نے غزہ میں جاری جنگ کے حل کیلئے جو ڈرافٹ تیار کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے نیتن یاہو کے مشورے کے ساتھ بیس نکاتی ایجنڈے کا علان کردیا ، اب کدھر گئی دوستیاں ، تعریفی کلمات ، بے تکلف بات چیت اور فوٹو سیشن ۔ امریکہ اسرائیل کو کسی بھی مرحلے پر اکیلا نہیں چھوڑے گا اس کیلئے تو اسلامی ریاستیں ایک دبکے کی مار ہیں ۔اگر ہندوستان کیساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھاکر اسے سفارتی سطح پر پریشان کرسکتا ہے تو وہ کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت یکدم بدل سکتا ہے ۔ اس ملک پر بھروسہ کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے والی سوچ ہے ۔ اسلامی ممالک کے ایجنڈے کو لپیٹ کر ٹرمپ نے ایک طرف رکھ دیا اور وائٹ ہاؤس سے جنگ بندی کیلئے اپنے ایجنڈے کا اعلان کردیا۔ اگر یہ ایجنڈا آٹھ ممالک کی متفقہ شرائط کی مطابقت میں نہ ہو تو اسکا مطلب ہے کہ اسرائیل امریکہ ملکر غزہ میں جنگ جاری رکھیں گے اور اس کا خاتمہ گریٹر اسرائیل کی صورت میں نمایاں ہوگا۔ حما س کو ہتھیا ر ڈالنے پر مجبور اور غیر مسلح کرنا اور اسرائیل کو مضبوط کرنا ہی امریکہ کی پالیسی ہے ۔ اس خطے میں اب جو کچھ بھی ہوگا بربادی یا آبادی ،اسرائیل اور امریکہ کی باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہوگا۔ اسلامی ممالک جب تک اکھٹے ہو کر ایک طاقتور آواز بنیں گے اس وقت تک ان امریکی شیطانی ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہی رہیں گے ۔ چند دن بعد نقشہ کھل کر سامنے آجائے گا کہ ہاتھی کس کروٹ بیٹھتا ہے ، پاکستان کے کرتا دھرتا ڈونلڈ ٹرمپ کی ابلیسی مسکراہٹ تعریف اور خوشامد سے بہت متاثر ہوچکے ہیں لیکن ابھی ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ملکر جو ایجنڈا بنایا اور اعلان کیا اس میں ہماری آٹھ اسلامی ملکوں کی کیا اہمیت رہی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرتے والا معاملہ ہوگیا۔ہمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے ، امریکہ اپنے مفاد میں اور دنیا پر اپنی تھانیداری ختم نہیں کریگا ، دنیا سے لیڈروں کی عقلمندیاں وہ لپیٹ کر رکھ دیتا ہے اور کسی کو اس کے آگے بولنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ وہ زمینی خدا بنا ہوا ہے ۔ ہمارے لیڈروں نعوذبااللہ اللہ سے زیادہ ٹرمپ کا ڈر اور خوف رہتا ہے کہ وہ ناراض نہ ہوجائے ۔ قطر کو لولی پوپ تھماکر ٹرمپ معنی خیز کیفیت میں پہنچ گیا ۔ مرتے کیا نہ کرتے والی پوزیشن ہے ۔ کمزور ممالک امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے میں تکلف نہیں کرتے ان کی بقا امریکہ کو خوش رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ بعض اسلامی ممالک نے ٹرمپ کے ایجنڈے کی تعریفیں شروع کردی ہیںجن میں مصر سرفرہت ہے ان کے خیال میں غزہ میں فلسطینیوں کو بے دخل نہیں کیا جائے گا ، ترقی ہوگی جتنی تباہی ہوئی اب تعمیراتی کام کے ساتھ غزہ میں پرسکون ماحول ہوگا ۔ وہاں امن کیلئے جو بورڈ آف پیس قائم کیا جائے وہ ٹونی بلئیر اور ٹرمپ کی سرپرستی میں کام کرے گا۔ یہ بھی واضح ہونا باقی ہے کہ اسلامی ممالک کی مشترکہ فورس جو غزہ میں امن قائم کرنے کیلئے بھیجی جائیگی کس ملک کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائیگی ،اسی طرح کئی موضوعات تفصیل طلب ہیں جن پر اسلامی ممالک کے سربراہان کے مشورے اور رائے ضروری ہے ۔ حماس امریکی ایجنڈے میں کئی ترامیم چاہتا ہے لیکن اس کی شنوائی کے مواقع کم دکھائی دیتے ہیں۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے زوراں وراں دا ۔ستیں ویہیں سو ۔ کچھ یہی حال امریکہ کے ساتھ ہے ۔ وہ اگر الٹے ہوں پھر بھی وہ سیدھے ہی ہوتے ہیںاور دنیا کو کہنا پڑتا ہے کہ یہ بالکل سیدھے ہیں ۔ رب نیڑے یا گھسن والا معاملہ ہوتا ہے ۔ دنیا میں جب تک امریکہ اپنی چلا تا رہے گا اسی طرح نا انصافیوں کی فضا قائم رہے گی ۔ اسلامی ممالک جن کے پاس قدرت نے سب کچھ عطا کیا ہوا ہے اگر اپنے زور بازو پر بھروسہ کرلیں تو اندھیروں میں اجالے محسوس ہوں گے ورنہ ڈر خوف ،کمتری کے احساس تلے دبے رہنا انکا نصیب بنا رہے گا۔ امریکہ کا کردار بالکل ماسی مصیبتے والا بنا ہوا ہے کہ اس نے کسی کو چین سے بیٹھنے نہیں دینا ۔ امید ہے ہمارے ملک کے رہنما بھی امریکہ کی چال بازیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور پاکستان کو اس کی پرفریب چالوں سے محفوظ رکھنے کیلئے چاک و چوبند ہیں ۔ اللہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں آپس میں دوست ہیں مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے ۔

Exit mobile version