ھ مےں ےزےد کے بر سر اقتدار آنے اور نواسہ رسول حضرت امام حسےن ؑ کا بےعت سے انکار کے بعد آپ ؑ نے اپنے اہل و عےال سمےت 28 رجب 60ھ کو مدےنہ چھوڑا ۔ 28رجب 60ھ تا عصر عاشور محرم 61ھ امام مظلوم نے مختلف مواقع پر گفتگو مےں ،خطوط مےں ،تقرےر مےں اس سانحے کے حوالے سے اظہار خےال فرماےا ۔امام عالی مقام سے منسوب ےہ کلمات ،خطوط ،خطابات ،تارےخ کی معتبر کتابوں مےں محفوظ ہےں ۔ذےل مےں ان کو تشرےح و تبصرے کے بغےر نقل کےا جاتا ہے ۔گورنر مدےنہ ولےد بن عتبہ نے جب ےزےد کےلئے امام ؑسے بےعت کا مطالبہ کےا تو فرماےا ”اے امےر! ہم خاندان نبوت ہےں ،رسالت کی کان ہےں ۔ہمارا خاندان فرشتوں کی آمدورفت کی آماجگاہ اور رحمت خدا کے نزول کی جگہ ہے ،خدا وند عالم نے ہمارے خاندان کے ذرےعے اسلام کی ابتدا فرمائی اور آخر تک ےہ اسلام ہمارے ہی خاندان کے توسط سے ترقی کی منازل طے کرے گا ۔البتہ ےزےد جس کی بےعت کی تم توقع رکھتے ہو وہ تو شرابی ہے اس کے ہاتھ بے گناہ افراد کے خون سے آلودہ ہےں ۔وہ اےسا شخص ہے جو احکام الہٰی کی حرمت کو پامال اور لوگوں کے سامنے اعلانےہ طور پر فسق و فجور کرتا ہے، آےا مجھ جےسے نماےاں اور پاکےزہ ترےن خاندان کے فرد کےلئے جائز ہے کہ اےسے فاسق و فاجر کی بےعت کرے ؟تم دونوں کو چاہےے کہ مستقبل کو پےش نظر رکھو اور تم عنقرےب جان لو گے کہ خلافت اور امت مسلمہ کی رہبری کرنے اور لوگوں سے بےعت لےنے کےلئے کون زےادہ حقدار و سزاوار ہے۔جب مدےنہ چھوڑنے کا اظہار فرماےا تو آپ کے بڑے بھائی جناب محمد بن حنفےہ نے مکہ ےا دےگر مقامات کا مشورہ دےا ،تو امام حسےنؑ نے اسے فرماےا ”مےرے بھائی تم مجھے بےعت ےزےد سے روکنے کےلئے اےک شہر سے دوسرے شہر اور صحراﺅں کے سفر کی تجوےز پےش کر رہے ہو (لےکن) ےہ جان لو کہ اگر ساری دنےا اس وسےع و عرےض کائنات مےں مےرے لےے کوئی ملجا و ما¿وی ،کوئی پناہ گاہ نہ ہو پھر بھی ےزےد کی بےعت نہےں کروں گا ۔“مکہ پہنچ کر بصرہ کے سرداروں کے نام ےہ خط لکھا : اما بعد ،خدا وند عالم نے حضرت محمدﷺ کو لوگوں مےں سے چنا اور انہےں امر نبوت اور بزرگی بخشی اور رسالت کےلئے منتخب فرماےا ۔پھر جب آنحضرت نے اپنا پےغمبری فرےضہ بخےر و خوبی انجام دےا اور آپ بندگان خدا کی ہداےت و رہنمائی فرما چکے تو خدا نے انہےں اپنے پاس بلا لےا۔ہمارا خاندان اولےا اور پےغمبر اکرم کے وارثوں اور امت کے شائستہ ترےن افراد کا خاندان تھا اور امت رسول کے درمےان ممتاز ترےن خاندانوں مےں شمار ہوتا تھا لےکن اےک گروہ ہم پر سبقت لے گےا اور اس نے ہم سے ےہ حق چھےن لےا اور ہم نے بھی ےہ جانتے ہوئے کہ ہم اس گروہ پر بھاری رہےں گے شائستگی کی بنےاد پر امت کو ہر قسم کے فتنے ،نفاق اور پرےشانی و پراگندگی سے بچانے اور بےرونی دشمن کو تسلط سے باز رکھنے کی خاطر ،رضا و رغبت سے خاموشی اختےار کی اور مسلمانوں کے آرام و سکون کو اپنے حق پر مقدم سمجھا ۔البتہ اب مےں اپنا نمائندہ تمہاری طرف بھےج رہا ہوں ،تمہےں کتاب خدا اور سنت رسول کی دعوت دےتا ہوں اس لےے کہ اس وقت ہم اےسے حالات سے گزر رہے ہےں کہ سنت رسول ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈےرے ڈال رکھے ہےں ۔اگر تم نے مےری دعوت پر لبےک کہی تو مےں تمہےں خوش بختی اور سعادت کی طرف ہداےت کروں گا ،خدا کا درود ،اس کی رحمتےں اور برکتےں تم پر ہوں “۔اہل کوفہ کی طرف سے کثےر تعداد مےں حماےت کے خطوط موصول ہونے پر ان کے جواب مےں تحرےر فرماےا :۔اما بعد ۔تم لوگوں کا آخری خط ہانی اور سعےد کے توسط سے مجھے ملا ۔آپ لوگوں نے جو گزارشات اور توصےحات دی ہےں انہےں مےں سمجھ چکا ہوں ۔زےادہ تر خطوط مےں تمہاری درخواست ےہ تھی کہ ہم امام اور پےشوا نہےں رکھتے ۔ہماری طرف آئےں تا کہ آپ کے وسےلے سے خداوند عالم ہمےں حق کی طرف ہداےت کرے ۔اس وقت مےں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقےل کو (جو مےرے خاندان مےں مےرے نزدےک سب سے زےادہ مورد اعتماد ہےں ) تمہاری طرف بھےج رہا ہوں اور اسے مےں نے حکم دےا تمہارے افکار و نظرےات کو نزدےک سے دےکھے ،پرکھے اور نتےجے سے مجھے آگاہ کرے ،کہ کوفہ کے نظرےاتی افراد مےں واقعاً ےہ خواہش موجود ہے (جو تم نے اپنے خطوط مےں بھی بےان کی ہے اور تمہارے بھےجے ہوئے افراد نے بھی اس کا ذکر کےا ہے ) پھر مےں انشاءاﷲ عن قرےب تمہاری طرف روانہ ہو جاﺅں گا ۔خدا کی قسم سچا پےشوا اور امام برحق وہ ہوتا ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے ،عدل و انصاف اختےار کرے اور اپنا وجود احکام خدا وندی کی بجا آوری کےلئے وقف کر دے “۔روز عاشور کا اےک اہم خطاب :۔
امام ؑ اپنے لشکر کی صفےں درست کرنے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوئے اور خےموں سے قدرے فاصلے پر کھڑے ہو کر بلند آوازسے لشکر عمر ابن سعد کی طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے ۔”اے لوگو ! مےری بات بھی سنو اور جنگ مےں جلدی نہ کرو تا کہ مےں اپنا فرےضہ جو تمہاری نصےحت و وعظ پر مشتمل ہے انجام دے سکوں اور مےں اس جگہ تک آنے ،سفر کرنے کے اصل سبب کی وضاحت کر سکوں اگر تم نے دلےل قبول کر لی اور مےرے ساتھ تم نے انصاف کےا تو سعادت کا راستہ پا لو گے اور تمہارے پاس مےرے ساتھ جنگ کرنے کی کوئی دلےل نہےں رہے گی اور اگر تم نے مےری دلےل قبول نہ کی اور انصاف نہ کےا تو پھر سب اےک دوسرے کے ہاتھ مےں ہاتھ دو اور ہر تقسےم اور ہر باطل وسےلہ اور باطل کام جو مےرے بارے مےں تم کر سکتے ہو کر لو لےکن بہر حال حقےقت تم سے پوشےدہ نہےں رہنی چاہےے ۔مےرا بہترےن اور مددگار ساتھی وہ خدا ہے جس نے قرآن کو نازل کےا اور وہی نےک لوگوں کا مددگار اور ان کا ساتھی ہے “۔ےوم عاشور اےک اور موقع پر لشکر شام سے اس طرح مخاطب ہوئے :۔”لوگو ! مےرے بارے مےں غور و فکر کرو کہ مےں کون ہوں پھر اپنے آپ مےں آﺅ ۔اپنے آپ کو ملامت کرو ۔دےکھو کہ مجھے قتل کرنا اور مےری حرمت کو پامال کرنا تمہارے لےے جائز ہے ؟ کےا مےں تمہارے پےغمبر کی دختر کا فرزند نہےں ؟ کےا مےں تمہارے پےغمبر کے چچا زاد اور وصی کا فرزند نہےں ؟ کےا مےں اےسی ہستی کا فرزند نہےں کہ جو سب مسلمانوں سے پہلے خدا پر اےمان لائے تھے اور سب سے پہلے پےغمبر کی رسالت کی تصدےق کی تھی ۔آےا سےد الشہداءحضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ مےرے باپ کے چچا نہےں تھے ؟کےا جعفر طےار رضی اﷲ اﷲ عنہ مےرے چچا نہےں تھے ؟کےا تم نے مےرے بارے مےں اور مےرے بھائی کے بارے مےں پےغمبر اکرم ﷺ کی وہ حدےث نہےں سنی کہ ( حسن ؑ و حسےنؑ جوانان جنت کے سردار ہےں)اگر تم لوگ مےری اس گفتگو کی تصدےق کرو کہ ےہ وہ حقائق ہےں کہ جن مےں ذرا سا بھی شک و شبہ کا شائبہ نہےں ہے ۔اس لےے کہ روز اول سے مےں نے نہ جھوٹ بولا ہے ۔مےں ےہ سمجھ چکا ہوں کہ خدا وند عالم نے جھوٹ بولنے والوں پر غضب کےا اور جھوٹ بولنے والے کے جھوٹ کا نقصان اسی جھوٹ بولنے والے کی طرف پلٹتا ہے اور اگر تم مےری تکذےب کرتے ہو مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو اس وقت تمہارے درمےان پےغمبر کے صحابی موجود ہےں کہ جن سے تم سوال کر سکتے ہو ۔جابر بن عبداﷲ انصاری ،زےد بن راقم ،انس بن مالک سے پوچھو کہ ان سب نے پےغمبر اکرم ﷺ کی حدےث سنی ہے اور ےہی اےک جملہ تمہےں اس بات سے باز رکھ سکتا ہے کہ تم مےرا خون بہانے سے ہاتھ اٹھا لو “۔
مدےنہ تا کربلا،امام حسےن ؑ کے بعض کلمات و خطبات
