21نومبر دوہزار چوبیس کا دن دوستوں اور احباب کے دلوں میں خنجر کا وار کرگیا ، یہ ایڈووکیٹ مرزا عبداللہ بیگ کی جدائی کا زخم تھا جو ہمیشہ ہرا اور تازہ رہے گا۔ مرزا عبداللہ بیگ سپریم کورٹ کے وکیل ہی نہیں ہمارے پیارے ساتھی دوست بھی تھے۔ لاہور میں رہائشی پذیر تھے اکثر کیس کیلئے اسلام آباد آیا کرتے تھے ۔وقت ملنے پر سپریم کورٹ بار میں گپ شپ کیا کرتے تھے ،آپ مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ جسکے ساتھ چند لمحے گزارے وہ انکا دوست بن جاتا۔ ریڈیو جیوے پاکستان ڈیجیٹل کی مشہور شخصیت طارق ہاشمی سے ایک بار میرے ساتھ سپریم کورٹ میں ملاقات ہوئی، اکھٹی چائے پی ، اس کے بعد ان سے جب بھی فون ہر بات ہوتی مرزا صاحب کو یاد کرتے۔ ہماری مرزا عبداللہ بیگ سے دوستی سپریم کورٹ بار میں ہوئی پہلی ہی ملاقات میں دوستی گہری ہو گئی۔ آپ بڑی کھری سچی طبیعت کے مالک تھے۔ ان کا صاحبزادہ فارن آفس اسلام آباد میں تھا ۔ایک بھائی اور بہن بھی یہی مقیم ہیں۔ ان کا بھانجا مرزا فیصل ایڈووکیٹ اسلام آباد بار کا ممبر ہے، یہی پریکٹس بھی کر رہا ہے۔ مرزا عبداللہ بیگ بتایا کرتے تھے کہ میں نے بھی اب لاہور سے اسلام آباد میں شفٹ ہو جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس دوران اسی بیٹے کی بیرون ملک ٹرانسفر ہو گئی۔ دو تین ماہ قبل فیملی کےساتھ آپ بھی بیٹے کے پاس چلے گئے تھے ۔ کچھ ہفتے وہاں گزارے، اکثر وہاں سے بھی فون پر گپ شپ رہتی، بہت خوش تھے۔ پھر پتہ چلا واپس لاہور آگئے ہیں۔ فون پر بات ہوئی کہا اب مکان کو فروخت کر کے جلد اسلام آباد آ رہا ہوں۔یہ خبر مجھے ہمیشہ اچھی لگی آپ سے جب بھی بات ہوتی کہتے کہ آپکے کالموں کی کتاب چھپنی چاہیے۔اسکے بعد سے اس پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور اس راستے پر چل پڑا، اب انشااللہ یہ کتاب جلد دیکھی جا سکے گی ۔ اسکے چھپنے کا کریڈٹ مرزا عبداللہ بیگ کو جاتا ہے جنھوں نے اس کتاب کو چھپوانے میں اہم رول ادا کیا ۔ وہ میرے کالم نہ صرف پڑھتے تھے بلکہ تبصرہ بھی کرتے۔ وہ خود بھی سفر نامہ لکھ چکے تھے۔ جب فارن سے واپس آئے تو فون پر اکثر بات ہوتی۔میں نے بتایا کہ اب کتاب آخری مراحل میں ہے۔ سن کر بہت خوش ہوئے۔ اسلام آباد ایک کیس کے سلسلے میں آئے اور کہا ٹائی پہننا بھول گیا ہوں ہم نے اپنی ٹائی اتار کر انہیں پہنا دی۔ دوسرے روز مجھے پیکٹ دیا جس میں میری کالی ٹائی کے ساتھ نئی کلر فل ٹائی بھی تھی۔ آج جب یہ منظریاد کرتا ہوں، تو لگتا ہے یہ مرزا صاحب کا مجھے گفٹ دینے کا ایک بہانا تھا۔ یہ تحفہ آج بھی مجھے ان کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ مجھے امید نہ تھی کہ میرا یہ پیارا مخلص دوست چلتا پھرتا یوں ہی ہم سے بچھڑ جائے گا ۔ کہاجاتا ہے جس روز انہیں اپنے نئے سفر پر روانہ ہونا تھا روٹین کے مطابق صبح، اٹھے نماز پڑھی ناشتہ کیا۔ بیٹے کےساتھ کورٹ جانے کو تیار ہوئے۔ وکالت کا ڈریس پہن رکھا تھا۔ پاس بیٹھے بیٹے سے کہا بس تھوڑی دیر میں چلتے ہیں۔ پھر بیٹھ کر آیت کرسی پڑھی اور ساتھ بیٹھے بیٹے کو گلے لگ کر اسے اپنے سینے کے ساتھ دبایا اور کلمہ پڑھتے ہوئے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ جبکہ ان کا چھوٹا بھائی خورشید بیگ اکثر بیمار رہتا تھا ۔ یہ بھائی بھی مرزا عبداللہ کے سوئم کے ایک روز بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی ایسے بھی سفر پر روانہ ہوتا ہو گا ۔ میں ابھی تک یہی سمجھ رہا ہوں کہ لاہور میں ہی ہے ۔ بس آج بات نہیں ہوئی ۔ مرزا عبداللہ کی مجھ سے زیادہ دوستی یاری سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سید منظور گیلانی سے تھی۔ آج جب ہم اور ملک حیدر عثمان اعوان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سیکٹری بار سے ملکر بار روم پہنچے تو عبداللہ بیگ کے سفر آخرت کی اطلاع سید منظور گیلانی بڑی افسردگی دی کہ آج بری خبر ہے۔ ہمارا پیارا دوست مرزا عبداللہ بیگ کورٹ جانے کے بجائے اللہ کے پاس پہنچ چکا ہے ۔یہ سن کر سر چکرا گیا، آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔پھر بتایا کہ ان کے بھانجے مرزا فیصل بیگ ایڈووکیٹ کا ابھی فون آیا تھا۔ بار میں موجود یہ خبر سن کر تمام ساتھی دوستوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم ایک اچھے دوست سے محرم ہو چکے ہیں۔ اس خبر پر ہر ایک کی آنکھ نم تھی۔ سب نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس دوست بھائی کی منزلیں آسان کرنا انہیں جنت و فردوس میں جگہ دینا آمین۔ سید منظور گیلانی نے انکی دعا میں شرکت کےلئے لاہور روانہ ہوئے ۔ سید منظور گیلانی صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔ اپنے قریبی ساتھیوں کی غمی خوشی میں ضرور پہنچتے ہیں۔ میرے سیاسی استاد محترم معراج محمد خان مرحوم کی برسی پر کراچی بھی وہ اس سال گئے تھے۔تعزیتی ریفرنس اور دعاں میں وہاں شرکت کی تھی ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے وی لاگ کے زریعے ساتھیوں عزیزوں کو ملکی حالات حاضرہ سے با خبر بھی رکھتے ہیں۔ اگر لاہور میں ہوں تو مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ کامن دوستوں کے بارے میں فون پر بتاتے رہتے ہیں۔ مرزا عبداللہ بیگ کی اچانک جدائی پر ہم سبھی بہت رنجیدہ افسردہ ہیں۔خورشید بیگ کی جدائی کی خبر سید منظور گیلانی صاحب کو عبداللہ بیگ کے بھتیجے فہد بیگ نے دی تھی۔ سن کر یوں لگا جیسے غموں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوں۔موت دراصل حقیقت ہے۔ ہر زندہ چیز نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہم برے کاموں سے بچنے کی کوشش کرنے کے بجائے موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ موت سے نہیں بچ سکتے ہیں گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔موت آتی ہے اور بغیر اطلاع کے آتی ہے۔ بیماریاں قدرتی آفات خدا کے قریب انسانوں کو لانے کا بہانہ ہوتی ہیں۔یا اللہ جن کے والدین بہن بھائی اولاد عزیز و اقارب دوست ساتھی فوت ہو چکے ہیں ان سب کو جنت و فردوس کا مکین بنا دیں ۔ آمین