مسکرانا اور خوش رہنا صحت کےلئے ضروری ہے
اک تبسم ہزار شکووں کا
کتنا پیارا جواب ہوتا ہے
بابا کرمو کا کہنا ہے کہ مزاح کے لیے گالیاں یا جگتیں ضروری نہیں بلکہ اچھے انداز میں بھی مذاق کیا جا سکتا ہے ،بات کی کی جاسکتی ہے ؟ جیسے لکھنوی انداز میں ایک گپ شپ حاضر خدمت ہے۔ داماد کو دسترخوان پر انڈوں کا سالن پیش کیا گیا توعرض کیا !جناب ان انڈوں کے والدین سے ملنے کا اشتیاق تھا ارشاد ہوا کہ برخوردار ، یہ بیچارے یتیم ہیں انھی کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیجئے ۔ دوسرے روز داماد گھر پر اکیلا تھا اور گھر والے سب اپنے اپنے کاموں پر گھر سے باہر جا چکے تھے۔ صحن میں مرغ اور مرغی گھوم پھر رہے تھے۔ اس نے مرغ کو پکڑا اور اس کی کھال اتار کر کمرے میں لٹکا دی۔ گھر میں جب سسرال والے واپس آئے تو مرغی تھی مگر مرغ غالب تھا۔ داماد سے پوچھا مرغ کو کیا آپ نے نہیں دیکھا ۔ کہا ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے وہ وردی اتار کر ہانڈی کے گرم پانی میں نہا رہا تھا۔ اچھا ہوا ہے آپ آ گئے۔ اب آپ اس ہانڈی میں نمک مرچ اور گھی ڈال دیں تاکہ اچھی طرح یہ مرغ نہا سکے۔ اب اپ چپاتیاں بنا لیں ان سے اس کو خشک کر لوں گا۔ ہاں رات کا کھانا نہیں کھاو¿ں گا۔ اگر اجازت دیں تو آپ کی گھوڑی پر میں واپس چلا جاو¿ں۔ کہا ٹھیک ہے مگر گھوڑی کو واپس کون چھوڑ کر جائے گا۔ کہا جانور بڑے سمجھدار ہوتے ہیں گھر پر یہ خود ہی پہنچ جاتے ہیں۔ گھر والے مرغ کی وردی کو دیکھ کر کہتے جاتے کہ معلوم نہیں کس نے ایسی سردی میں نہانے کا مشورہ دیا تھا۔داماد نے کہا اگر کل مجھے انڈوں کے والدین سے ملا دیتے تو میں مرغے کو سردی میں نہانے سے روک لیتا۔ سسر نے کہا بیٹا چلو میں تمہیں واپس گھر چھوڑ آتا ہوں۔ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر سسر داماد کو چھوڑنے گھر سے نکل پڑا ۔ سسر نے داماد سے پوچھا راستے میں جو خچر کی یادگار آتی ہے۔ کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو داماد نے کہا یہ یادگار دیکھی ہے مگر نہیں معلوم خچر کی یاد گار کیوں اور کس نے بنائی تھی۔ پھر سسر نے داماد کو بتایا قیام پاکستان سے قبل فوج میں خچر بٹالین ہوا کرتی تھی۔ فوج میں اسلحہ اور کھانے پینے کا راشن انہیں خچروں پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب خچر ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے۔ ان دنوں یہ خچر جس کی یہ یادگار ہے یہ ساری بٹالین میں بہت مشہور اور بڑا محنتی خچر تھا۔ بغیر کھا ئے پیئے کے یہ کئی کئی میل چلتا رہتا تھا۔ اگر دشمن کے ہاتھ لگ جاتا تو انھیں مار کر واپس آ جاتا تھا۔ اس میں بس ایک ہی بری عادت تھی کہ یہ سوچتے سمجھے بغیر دو لتیا مارا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت کی وجہ سے ان کے اپنے جوان بھی اس کے ہاتھوں مارے جا چکے تھے۔اس کی اس بری عادت کی وجہ سے اس کی اپنی موت بھی واقع ہوئی تھی۔داماد نے پوچھا وہ کیسے۔کہا ایک روز بارود کے تھیلے اس ہر رکھے جارہے تھے کہ اس نے عادت سے مجبور ہو کر دو لتیاں بارود کے بھرے تھالے پر مار دی پھر کیا تھا بارود پھٹ گیا اور یہ بھی مر گیا۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسی جگہ پر اس کی یہ یاد گار گوروں نے تعمیر کر رکھی ہے ۔ اس خچر کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں ۔لوگ اب کہتے ہیں بری عادات سے بچو یہ آپ کی بھی جان لے سکتیں ہیں۔ باتوں باتوں میں سسر کے ساتھ داماد گھر پہنچ گیا۔ گھوڑے سے اتر کر سسر کو خدا حافظ کہا اور اس نے گھوڑے کے پیچھے کھڑے ہو کر گھوڑے کو تھپکی مار دی، جس پر گھوڑے نے اسے زور دار دو لتی ماری اور یہ اچھل کر گھر کے اندر جا گرا۔ سسر کو انڈے داماد کو کھلانا مہنگے پڑے اور داماد کو سسر کے ساتھ گھوڑے کی سواری کرنا مہنگی پڑی۔ ایک واقع سردار کا یاد آ رہا ہے وعدہ کریں ہنسے گے نہیں تو پیش کئے دیتا ہوں ایک دفعہ لندن میں ایک سردار جی ایک دکان میں گئے اور دوکاندار سے پوچھا ؟ سرسوں دا تیل ہے ؟ یہ سن کر دکان دار بولا ، کیا آپ سکھ ھو ؟ سردار کو اس کے سوال میں نسل پرستی کی بو آئی اور سردار جی نے جواب میں کہا، ہاں میں سردار ہوں مگر کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ؟ اگر میں زیتون کا تیل مانگتا تو کیا تم پوچھتے کہ میں اٹلی کا ہوں ؟ اگر میں براڈ وسٹ مانگتا تو کیا تم مجھے جرمن کہتے ؟ اگر میں کوشر ہاٹ ڈاگ مانگتا تو کیا آپ مجھے یہودی کہتے ؟ اگر میں حلال گوشت مانگتا تو کیا آپ مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں مسلمان ہوں ؟ دکان دار بولا نہیں شاید میں یہ سب نہ پوچھتا۔ سردار غصے سے بولا کیوں جب میں نے سرسوں کا تیل مانگا تھا تو تم نے کیوں پوچھا کہ کیا تم سردار ہو ؟ یہ سن کر دوکان دار نے سنجیدہ لہجے میں کہا یہ وائن شاپ ہے یہاں شراب ملتی ہے ۔ کسی قسم کا تیل نہیں۔ یہ سن کر سردار جی کا غصہ جاتا رہا، سخت شرمندہ ہوئے اور دوکاندار سے معذرت کرتے ہوئے ایک کریٹ وائن کا خریدا اور گھر چل دیا ۔ اگر میری قلمی کاوش پڑھ کر بھی آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ نہیں آئی اور بارہ بجے ہوئے ہیں تو سمجھتا ہوں کہ خچر کی دولتیاں یاد آرہی ہیں۔دولتیاں خچر گدھے ہی نہیں مارتے انسان بھی مارتے ہیں۔ان دولتیوں کی وجہ سے ہی یہ اپنے پروموشن سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں۔ پھر بے جا دولتیاں کے مارتے سے یہ نوکری سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں۔ دو لتایا انسانوں کی دیکھنی ہوں تو صبح کے وقت اسلام آباد ایکسپریس پر موٹر سائیکلوں اور کاروں کو ایک لائن سے دوسری لائن میں دولتیاں مارتے دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس عادت سے نجات پائیں گے تو سکون ہو گا ۔
مسکرانا اور خوش رہنا سیکھیں
