آزاد جموں و کشمیر میں مہنگی بجلی اور آٹے کے خلاف گذشتہ پانچ روز سے جاری احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے بعد وفاقی و ریاستی حکومت نے مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے آٹے کے چالیس کلو گرام تھیلے کی قیمت میں 1100روپے کی کمی کےساتھ اب نئی قیمت 2000 روپے مقرر کی گئی ہے ۔اسی طرح بجلی کے نرخوں میں بھی کمی کر دی ہے۔ جاری کردہ نو ٹیفکیشن کے مطابق گھریلو صارفین کےلئے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت تین روپے اور زیادہ سے زیادہ چھ روپے مقرر کی گئی ہے۔جس کے بعدپاکستان کے مظاہرین کی نمائندہ عوامی ایکشن کمیٹی نے پانچ روز سے جاری احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے،جو انتہائی خوش کن اور تسلی بخش ہے۔جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق 100 یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کےلئے بجلی کی قیمت3روپے فی یونٹ جبکہ 100 سے 300 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے ادا کریں گے اور 300 سے زائد یونٹ ماہانہ استعمال کرنےوالے صارفین فی یونٹ چھ روپے کے حساب سے قیمت ادا کریں گے۔اسی طرح کمرشل صارفین کےلئے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت10روپے اور زیادہ سے زیادہ 15 روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔ 15روپے فی یونٹ 300سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پر لاگو ہو گا۔اس فیصلے کے ساتھ ہی ایکشن کمیٹی نے مظاہرین کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے کا کہہ دیا جبکہ مظفر آباد میں موجود ایکشن کمیٹی گذشتہ شام پیش آئے پرتشدد واقعات کے بعد حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ پیر کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں تین افراد کی موت کے بعد کشمیر میں اگلے روز منگل کو شٹر ڈاو¿ن ہڑتال رہی جبکہ مظفر آباد میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند رہے۔یہاں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیر کی شام بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے احکامات جاری ہو گئے تاہم اس دوران مظفر آباد میں مظاہرین اور رینجرز کے اہلکاروں کے مابین اس وقت تصادم ہوا جب رینجرز کے دستوں نے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔جس کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے،حکومت نے کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ مزید دو روز بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے مظفرآباد سمیت اہم علاقوں میں سکیورٹی سخت اور اہم تنصیبات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔قبل ازیںشہباز شریف کی زیرِ صدارت آزاد کشمیر کی حالیہ صورتحال پر اسلام آباد میں خصوصی اجلاس ہوا۔اجلاس میں وزیرِاعظم آزاد جموں و کشمیر، آزاد حکومت کے وزرا اور اعلی سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ وزرا اور اتحادی جماعتوں کے زعما نے بھی شرکت کی۔حالیہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد وزیرِاعظم نے کشمیری عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی۔ کشمیری قیادت اور جملہ شرکا نے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا۔ اس فیصلے کے فورا ًبعد آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔آزاد جموں و کشمیر محکمہ توانائی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔پیر ہی کے روزاسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ سستی روٹی، بجلی ایسا مطالبہ ہے جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے،میں عوام کے مطالبات پاکستان کی سینیٹ میں لے کر گیا تھا،انہوں نے کہا کہ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے کل آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی ممبران کو صدر ہاس بلایا ان سے احوال لیا، میں مکمل اظہار یکجہتی پر صدر زرداری کا شکرگزار ہوں، انہوں نے کہا میں وفاقی حکومت سے بات کروں گا، ہم کشمیری عوام سے محبت کو کمزور نہیں پڑنے دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ چونکہ منتخب جمہوری حکومت ہے وہ عوامی مینڈیٹ کو سمجھتی ہے، میں وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے جو تحفظات تھے وہ سنیں اور کہا کہ پاکستان کا کشمیری عوام سے لازوال رشتہ اسکے لیے جو کچھ کرنا پڑے گا آج اور ابھی کروں اور اسی وقت نوٹیفکیشن جاری کروں گا، جو کام عرصہ دراز سے التوا کا شکار تھے وہ ہوگئے اور بجلی اور روٹی کے نوٹیفکیشن جاری کردیے گئے۔چوہدری انوار الحق نے بتایا کہ ہم نے عوام کے احتجاج کو قوت کے طور پر استعمال کیا، حکومت کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، اس معاملے کو احتیاط سے دیکھا گیا ہے، ان معاملات کو حل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے سربراہ نے ذاتی دلچسپی لی اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے اتفاق کیا کہ جس حد تک ممکن ہے اپنے اخراجات میں کمی لائیں گے لیکن کشمیریوں کے مطالبات دور کیے جائیں گے۔بلاشبہ کشمیر کی صورت حال پر دانش مندی کام لے کر معاملہ نمٹا دیا گیا ہے،اس میں سب کا اہم کردار رہا ہے،لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر اسے پہلے روز ہی حل کر لیا جاتا تو اس حساس علاقے کے ضمن میں دنیا میں جگہ ہنسائی بھی نہ ہوتی۔تاہم اہم پہلو یہ ہے کہ کشمیریوں نے بھی معاملے کی نزاکت کو سمجھا ور ہڑتال ختم کر دی،امید ہے کہ کشمیر بھر میں معمولات زندگی جلد رواں دواں ہو جائی گے،یہ کسی ہار ہوئی ہے نہ جیت،ایک عوامی مسئلہ تھا جو حل ہوا۔
امریکہ کا انڈیا کو انتباہ
انڈیا نے ہمارے پڑوسی ملک ایران کےساتھ چاہ بہار بندرگاہ چلانے کےلئے 10 سال کا معاہدہ کر لیا ہے۔ نریندر مودی حکومت کا یہ اقدام مشرق وسطیٰ کے اس اہم ملک کےساتھ سٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔ معاہدے کے مطابق آئی پی جی ایل بندرگارہ پر 12 کروڑ کی سرمایہ کاری کرے گی اور اضافی 25 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ فراہم کی جائے گی جس کے بعد معاہدے کی کل مالیت 37 کروڑ ڈالر ہو جائے گی۔دوسری طرف معاہدے پر رد عمل دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ ڈیل امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ نہیں ہے۔تاہم واشنگٹن کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ اس معاہدے کے بعد نئی دلی پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل سے پریس بریفنگ کے دوران سوال پوچھا گیا کیا وہ ایران اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے سے آگاہ ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھارت اور ایران کے درمیان ہونےوالے چابہار بندرگاہ سے متعلق معاہدے سے باخبر ہیں۔ ویدانٹ پٹیل نے اس معاہدے پر امریکا کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کو چابہار بندرگاہ سمیت ایران کےساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنے دوں گا تاہم ایران پر عائد امریکی پابندیاں اپنی جگہ برقرار رہیں گی اور ہم ان پر پوری طریقے سے عملدرآمد جاری رکھیں گے۔امریکہ نے بظاہر تو نا پسندیدگی کا اظہار بھی کیا اور پابندیوں کا بھی ذکر کیا ہے لیکن عملاً بھارت کو وہ روک نہیں پائے گا،اس کی وجہ امریکہ کی پالیسی ہاتھی کے دانےوتوں کی مانند رہتی ہے۔
انسداد دہشت گردی،پاک امریکہ مشترکہ عزم
واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت میں علاقائی اور عالمی سلامتی و استحکام میں کردار ادا کرنے کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا ہے۔اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ سید حیدر شاہ اور انسداد دہشت گردی کےلئے امریکی محکمہ خارجہ کی رابطہ کار ایمبسیڈر ایلزبتھ رچرڈ نے اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔مذاکرات میں خطے میں انسداد دہشت گردی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں باہمی مفاد کے شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔مذاکرات میں انسداد دہشت گردی کےلئے استعداد کار بڑھانے سمیت تکنیکی تعاون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔دہشت گردی کے پس منظر میںپاک امریکہ بات ایک وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامناہے اور اس ضمن میں مشترکہ کوششوں کا عزم پاکستان کے مفاد میں ہے۔