Site icon Daily Pakistan

معاشی اصلاحات اور منڈی میں بڑھتی بے رحمی

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے فرمایا ہے آئی ایم ایف نے سے تمام ضروری معاملات طے پا چکے ہیں اور بہت ہمیں منظور شدہ قرضے کی اگلی قسط جاری ہو جائے گی جو کہ ہمارے لئے خوش آئند ہے اس سلسلہ میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا یہ کہنا کہ منظور شدہ قرضے کی نئی قسط کی منظوری ہمارے لئے خوش آئند ہے اور میرے خیال میں یہ واقعی خوش آئند ہے کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہم نے قرضے لینے ہیں اور ملکی معاملات کو چلانا ہے جہاں تک وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی شخصیت کا تعلق ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ ایک بنکر ہیں اور ایک طویل مدت سے شعبہ بنکاری سے منسلک ہیں اور ماہر بنکار ہیں اور اس سلسلے میں نہ صرف وسیع تجربہ رکھتے ہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ بنکنگ انڈسٹری کے مایہ ناز سپوت ہیں اور اگر انہیں کوئی نیا بنک قائم کرنا پڑے تو انتہائی مختصر مدت میں نہ صرف بنک قائم کرسکتے ہیں بلکہ اس کو ملک میں کامیابی سے ہمکنار بھی کرسکتے ہیں غرضیکہ جناب محمد اورنگ زیب کی شخصیت بنکاری میں ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور چند برس قبل تک وہ پاکستان کے سب سے بڑے بنک کے سربراہ تھے اور عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد وفاق میں وزیر خزانہ کے منصب ہوئے اور بعد ازاں سینٹ کے رکن منتخب ہوئے اور یوں پارلیمنٹ کا ایک حصہ بن گئے اور باضابطہ طور پر وفاقی وزیر خزانہ کا منصب سنبھال لیا اور یوں ملک میں بجٹ پیش کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے ملکی معیشت کو استحکام دینے اور دیگر معاملات کو چلانے کیلئے قرضوں کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے میں پیش پیش ہیں اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کے عالمی بینک کے ساتھ دیرینہ مراسم ہیں اور وہ اپنی وسیع تجربہ کی بنیاد پر اور عالمی بنک کے ساتھ اپنے دیرینہ مراسم کے پیش نظر معاملات کو خوشگوار ماحول میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے قرضے کی نئی قسط کی منظوری ہمارے لئے خوش آئند کے فقرے کا تعلق ہے میرے لئے یہ فقرے خوش آئند نہیں بلکہ تکلیف دہ ہیں کیونکہ چند برس قبل تک ملک میں نواز شریف کی حکومت تھی اور انہوں نے اپنے دور حکومت ملک پر واجب الا عالمی بنک سمیت دیگر تمام قرضوں کی ادائیگی کر دی تھی اور ملک کے غیور عوام کو خوشگوار ماحول میں سانس لینے اور زندگی گزارنے کا درس دے دیا تھا اور اچانک ایک ملک دشمنی شخص نے سیاسی لبادہ اوڑھ لیا اور اپنے غیر ملکی آقاں کی سرپرستی کے ساتھ عدلیہ میں چھپے ہوئے گندے انڈوں کی شراکت سے ملک سے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرڈالا اور ملک کو ترقی کی شاہراہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور غیر قانونی پر حکمرانی شروع کر دی اور اس دوران عالمی بنک اور دیگر اداروں سے اس قدر قرضے لئے گئے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قدر زیادہ قرضے نہیں لئے گئے اور یوں ملک کو ایک بار نہ صرف قرضوں کی دلدل میں جھونک دیا گیا بلکہ ملک کی معیشت کو تباہ حالی سے دوچار کر دیا گیا تا ہم آج یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ قرضے کہاں گئے اور کہاں استعمال کئے گئے اور اس سلسلے میں سابقہ حکومت سے کوئی جواب طلبی نہیں کی گئی جو کہ بہت ضروری ہے جہاں تک سابقہ حکومت کی لوٹ کھسوٹ کا تعلق ہے اس کے چرچے روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن اس سے معاملات حل نہیں ہو سکتے کیونکہ ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا گیا اور ان قرضوں کا حساب کتاب اولین ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے اور کسی حکومت نے یعنی موجودہ حکومت نے اس کو نظرانداز کر دیا تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی اور اس سلسلے میں ممبران پارلیمنٹ سمیت ملک بھر کے زی شعور لوگو ں کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر صاحب کی خدمت اقدس میں یہ مطالبہ کریں کہ سابق حکومت نے جو قرضے لئے تھے ان کا حساب کتاب دیا جائے اور اگر سابق وزیراعظم اور انکے حواری انکار کرتے ہیں تو کسی تاخیر کے بغیر ان کے اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے اور ان کی نیلامی کرکے قرضوں کی ادائیگی کی جائے اور جہاں تک موجودہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی جانب قرضے کی نئی قسط کو خوش آئند قرار دینے کا تعلق ہے اور میرے لئے اس فقرے کو تکلیف دہ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محترم وفاقی وزیر ایک کامیاب بنکار ہیں اور ایک ناکارہ بنک کو انتہائی خوش اسلوبی کے ترقی سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور میرے خیال میں وفاقی وزیر موصوف نئے قرضوں کے حصول کی بجائے کوئی ایسی منصوبہ بندی کریں کہ جس سے آمدن ہو سکے اور ہم نہ صرف اپنے معاملات کو خوشگوار ماحول میں چلا سکیں بلکہ سابقہ قرضوں کی ادائیگی کو بھی یقینی بنا سکیں اور اس سلسلے میں مجھے قوی یقین ہے کہ اگر وفاقی وزیر ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے ملک کو قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا دلانا چاہیے تو یہ انکے لئے معمولی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ میرے نزدیک محترم اورنگ زیب صاحب لاتعداد خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن اگر یہ چاہئیں تو ممکن ہو سکتا ہے بصورت دیگر یہ آسانی سے عالمی بنک سے نت نئے قرضے حاصل کرتے رہیں گے اور اس کو خوش آئند قرار دیتے رہیں گے تا ہم یہ سب کچھ انکی اپنی مرضی پر منحصر ہے جہاں تک عالمی بنک سے قرضوں کے حصول اور انکی اقساط کی وصولی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات بھی وضاحت کی طلب گار ہے کہ سابق حکومت کی جانب سے جو قرضے لئے گئے تھے اور مزید جو قرضے لئے جارہے ہیں اور کیا ان قرضوں سے سابقہ قرضوں کی ادائیگی کی جا رہی ہے یا ان قرضوں پر واجب الا سود کی رقم ادا کی جا رہی ہے اس سلسلہ میں قوم کو آگاہ کرنا بے حد ضروری ہے تاہم اگر حکومت اپنی جاری پالیسی پر نظرثانی کرے اور مختصر مدت یعنی چند برس کیلئے نئی منصوبہ بندی کرے اور نئے وسائل بروئے کار لائے جائیں تو نہ صرف قرضوں کی ادائیگی ممکن ہو سکتی ہے بلکہ جاری ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ کار بھی جاری رہ سکتا ہے تاہم ایسے معاملات اور منصوبہ بندی کے لیے پارلیمنٹ کے تمام رہنماں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں اگر ہم پارلیمنٹ کے ممبران اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اور ان سب تعلقات کار کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ کہیں قومی سوچ اور کہیں سیاست کے معاملات پر ورک کیا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری کرسی کا استعمال کرتے ہوئے عیش و عشرت کے مزے لیتے ہیں۔

Exit mobile version