عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)نے پاکستان کے ساتھ 7 ارب ڈالر قرض پروگرام پر جائزہ مذاکرات کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی کی منیجمنٹ توانائی کے شعبے میں لاگت کم کرنے معاشی ترقی کی شرح بڑھانے صحت عامہ تعلیم کے فروغ سماجی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے پر تبادلہ خیال ہوا پاکستان نے موجودہ قرض پروگرام پر سختی سے عمل درآمد کیا ہے بات چیت مثبت رہی پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات کو حتمی شکل دینے کے لئے ورچوئلی بات چیت جاری رکھیں گے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے ممکنہ طور پر فنڈز جاری کئے جاسکتے ہیں پاکستان کے ساتھ 7 ارب ڈالر قرض پروگرام پر جائزہ مذاکرات کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ کا جاری کردہ اعلامیہ معاشی حوالے سے انتہائی اہم ہے آئی ایم ایف کے مثبت تاثر سے قرض پروگرام کی ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کا قوی امکان پیدا ہوگیا ہے معیشت کے حوالے سے پیش رفت یقینا حکومت کے ان سخت اقدامات کا نتیجہ ہے جو معاشی ابتری کا تسلسل ختم کرنے کیلئے ناگزیر تھے ان کی وجہ سے اہل وطن کو اگرچہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب ان فیصلوں کے مثبت نتائج رونما ہونے کا عمل شروع ہوگیا ہے ملکی معیشت پر چھائے مایوسی اور بے اعتمادی کے بادل دور ہونا ایسا واقعہ ہے جس کی توقع مشکل سے کی جاسکتی تھی 2021 کے ابتدائی مہینوں میں تحریک انصاف حکومت کے دور میں ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر تھا تاہم آج قومی معیشت میں بہتری کا رجحان ایسی حقیقت ہے جس کے ٹھوس ثبوت عالمی مالیاتی اداروں کے اقتصادی جائزوں کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ہیں پاکستانی معیشت کو تین قسم کے مسائل کا سامنا ہے ملکی معیشت سپورٹ کے داخلی ذرائع کے بجائے بیرونی ذرائع پر زیادہ منحصر ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتیں معاشی سدھار اور اقتصادی استحکام کے اقدامات کی بجائے بیرونی قرضوں گرانٹس اور مالی امداد کے حصول کے لئے کوشاں رہتی ہیں دوسرا بڑا مسئلہ پیدواری معیشت کے بجائے کنزیومر مارکیٹ میں ڈھلنا ہے جس کا بدیہی نتیجہ کرنٹ اکانٹ اور بجٹ خسارے کی صورت میں برآمد ہوا ہے تیسرا بڑا مسئلہ عدم معاشی و سیاسی استحکام ہے پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لئے رواں مالی کے دوران آئندہ دو سال کے دوران بھاری مقدار زرمبادلہ کی ضرورت ہے اگر ہم قرضوں کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے جن سے ہر حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری حتی کہ مقتدرہ بھی کتراتی ہے یہ فیصلے ہماری بنیادی سمت درست کرنے کے لیے اہم ہیں وہ سمت جو ہمیں بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر لے جاتی ہے اور ہمارے عوام کے لیے نئی سے نئی مشکلات کا سبب بنتی ہے ریاست اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کرتی ہے اور یہ خرچہ زیادہ تر غیر پیداواری ہوتا ہے یعنی اس سے براہ راست برآمدات بڑھتی ہیں اور نہ ہی معیشت کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے ہمیں چادر دیکھ کر پاں پھیلانے کی ضرورت ہے حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم، برآمدات میں اضافہ درآمدات میں کمی اور قومی آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کےلئے ٹھوس پالیسی وضع کرے آئی ایم ایف کا پاکستانی معاشی کامیابیوں کو تسلیم کرنا انتہائی حوصلہ افزا ہے ضروری ہے کہ معاشی استحکام کے اقدامات کو بڑھایا جائے رواں مالی سال کی معاشی ترقی کا تخمینہ تین فیصد ہے ترقی کی اس معمولی رفتار کے ساتھ معیشت کا وہ سرکل نہیں بن سکتا جو ملک میں روز گار کے مطلوبہ مواقع مہیا کرسکے پاکستان جیسے نوجوان آبادی والے ملکوں میں روز گار کی مارکیٹ کو تیز کرنے کے لئے اس سے دوگنا گروتھ دورکار ہوتی ہے ملک کی معیشت اس وقت ایسے مقام پر ہے کہ سالانہ بنیادوں پر ترقی کی رفتار میں دوگنا اضافہ بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ توانائی ٹیکس اور تحفظ کے معاملات تسلی بخش ہوں فی الحال ہمیں مہنگی توانائی اور ٹیکسوں کی بہتات کے علاوہ سیکورٹی کے تحفظات کا بھی سامنا ہے۔
معاشی بحالی کا سفر
