حیراں ہوں دل کو روں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
قاتل نتاشا ہو، شاہ رخ جتوئی ہو عبدالحمید اچکزئی یا ریمنڈ ڈیوس، مقتول جان مہر ہو، اجے لالوانی، عزیز میمن یا ناظم جوکھیو، اول الذکر طبقہ کی بے گناہی ثابت کرنے کےلئے قانون سے لیکر قانون دان ہسپتال سے لیکر لیبارٹری اور سیاست و حکومت سب حرکت میں آ جاتے ہیںجبکہ موخر الذکر طبقہ کی قسمت میں رہ جاتی ہے تو فقط نوحہ گری۔کبھی سوچا کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟اس لیے کہ قانون کی جن کتابوں سے ہم انصاف تلاش کرتے ہیں ان کے مصنفین طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی اور 97 فیصد ممبران اشرافیہ کے نمائندہ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ تین فیصد بھیڑ بکریوں کےلئے قوانین بناتے پھریں۔ان سے عام شہری کےلئے قانون سازی کی توقع ابلیس سے نیکی کی راہ پوچھنے کے مترادف مگر ان کا کمال دیکھیں کہ وہ چہرے اور پارٹی بدل کر اگلے پانچ سال کےلئے پھر عوام میں اور قومی وسائل نوچنے کےلئے تیار ہوتے ہیں اور سادہ لوح عوام انہیں مسیحا جان کر نئے عزم اور ولولہ سے دل و جان ان پر نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔یہی قانون ہی تو قاتل کو صلح اور دیت کے نام پر بھاری رقم کے عوض زندگیوں کے سودا کی راہ دکھاتا ہے پھر یہ جشن فتح مناتے ہشاش بشاش اپنے محلات کو لوٹتے ہیں ۔ طاقتور کیخلاف ہر مقدمہ میں مظلوم مدعی بے بسی و بے کسی کی تصویر بنے قانون دانوں کے دفاتر میں رکھی آئین کی موٹی موٹی کتب اور قانون کی تشریح پر مامور ادارے سے للچائی نظروں سے طالب انصاف رہتے ہیں انکو علم ہی نہیں ہوتا کہ انکے حصہ کا انصاف تو کب کا بک چکا۔اسی وجہ سے خاندان شاہی کے مسلمہ بدعنوان عناصر اور بدمعاشوں و بدقماشوں کو سنگین سے سنگین مقدمات میں نہ صرف ضمانت بلکہ بریت بھی مل جاتی ہے ۔ اس کے باوجود جن کے سر میں انصاف کے حصول کا سودا سمایا ہو ان کا حال سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے زخمیوں، پسماندگان اور مدعیان جیسا ہی ہوتا ہے کہ بڑے بڑے احتجاج، سپہ سالار کی سفارش اور چیف جسٹس کی ضمانت بھی کام نہیں آتی ۔ نادانوں کو علم نہیں کہ یہاں انصاف صرف طاقتور کےلئے اور کمزور کے مقدر میں تاریخ پر تاریخ، اسی تاریخ پر تاریخ کے دوران پی وہ خود تاریخ بن جاتا ہے۔حکمرانوں اور حکمرانی کےلئے پیدا ہونےوالوں کےلئے رات کے پچھلے پہر بھی عدالتیں سجتی ہیں، قلم چلتے اور فیصلے ہوتے ہیں ۔یہ برطانوی نظام انصاف تھوڑی ہے کہ جہاں دن رات کے اوقات میں ملزموں کو شناخت کر کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے کہ انصاف پسند معاشروں میں تاریخ ڈالی نہیں بنائی جاتی ہے ۔ وہاں قانون دان مجرموں کو بچانے کےلئے جھوٹی گواہیاں پیش کرسکتے ہیں اور نہ ایسی میڈیکل رپورٹس بنتی ہیں جو شراب کو شہد میں تبدیل کریں ۔ آئین اور قانون کا زور صرف محکوم و مجبور طبقات پر اور اشرافیہ اس سے بالا۔اس کے باوجود اگر کوئی موجودہ بندوبست کو جمہوری کہے اور اسے عوامی راج جانے، تو بقول رفیع
تمہارے حق میں کوئی فیصلہ ہوا ہو گا
جو یہ نظام تمہیں منصفانہ لگتا ہے
یہ انصاف کا دوہرا معیار ہی تو ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں 57ہزار سے زائد کیسز التوا کا شکار جبکہ طاقتور ملزم دولت اور مقبولیت کے بل بوتے پر اپنے کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کہ جس سے دہشت گردی و قتل و غارت گری اور اربوں روپے مالیت جیسے حساس اور اہم نوعیت کے کیسز کئی کئی سال تک معرض التوا کا شکار رہتے ہیں ۔ طاقتور کےلئے قانون کی گنگا تک الٹی بہا دی جاتی ہے ماڈل ٹان کیس کو دیکھ لیجیے کہ ملکی نہیں عدلیہ کی تاریخ میں بھی کبھی ماتحت عدالت نے اعلیٰ عدالت کے فیصلہ کے بر خلاف حکم امتناعی کی جرا¿ت نہ کی مگر اس کیس میں ایسا ہوا۔بےگناہوں کا خون اور گولیوں کا نشانہ بنتی خواتین کی چیخیں بھی نظام عدل کے مردہ لاشے میں جان نہ ڈال سکیں ۔ مقتولین اور زخمیوں کے لواحقین آج بھی در بدر، سانحہ ساہیوال کے ملزمان بھی ترقی پا رہے ہیںاور تو اور اربوں کے پراجیکٹس پر حکم امتناعی کے معاملات برس ہا برس سے فیصلہ جات کے منتظر۔دو ماہ قبل جاری ہونےوالی ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کے مختلف عدالتوں میں 2700ارب کے کیسز التوا کا شکار، ان لینڈ ریونیو کے 2400ارب اور کسٹمز کے 250 ارب روپے جبکہ مجموعی طور پر 90ہزار کیسز عدالتوں میں فیصلہ جات کے منتظرجبکہ ہمارے حکمران قرض در قرض کےلئے در بدر، مگر مجال کہ معزز اسمبلیاں قانون سازی کر کے مالی معاملات کے اہم ترین نوعیت کے کیسز کی مدت فیصلہ کا تعین کرکے ریاست کو بدحالی کے شکنجہ سے نکالنے کی سعی کریں۔پی ٹی آئی حکومت نے البتہ فیصلہ جات کے تعین کی مدت بارے قانون سازی کی کوشش کی۔اس پر عملدرآمد کی نوبت کیوں نہیں آئی معلوم نہیں ۔ یہاں حصول انصاف کےلئے آنکھیں پتھرا اور نسلیں مٹ جاتی ہیں۔یہی تو وجہ ہے کہ سرزمین بے آئین ایسی مقتل گاہ بن چکی ہے کہ جہاں قاتل، مقتول کے انتخاب میں آزاد اور حکومت و اسمبلی سوائے تماشا کے کچھ نہیں ۔ افسوس کہ یہاں تجربات ہوئے، حکومتیں بدلیں، چہرے بدلے مگر نہ بدلے نہ بدلنا تھا تو عوام نے اور استحصالی نظام نے