انسان کی بساط یہ ہے کہ وہ ایک سکینڈ بھی اپنی زیست میں اضافہ نہیں کرسکتا لیکن یہی انسان غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوکر دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیتا ہے۔ اللہ رب العزت جو ہر چیز کا خالق اور مالک ہے، وہ اس کو وقتی طور پر ڈھیل دے دیتا ہے،مگر یہ بدبخت فرعونیت اور تکبر میں تمام حدود کراس کر جاتا ہے، تب اللہ رب العزت اس ظالم کی رسی کھینچ لیتا ہے، پھر وہ سدا ذلیل و رسوا رہتا ہے۔تاریخ عالم میں ایسے افراد کے تذکرے موجود ہیں۔ بعض بد بختوں کے اختتام پوشیدہ ہیں لیکن بعض کے انجام عیاں ہیں۔
اللہ رب العزت انسانوں سے ستر ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے، جس نے اللہ کی مخلوق کو پریشان کیا اور گزند پہنچایا، اس کا انجام برا رہا اور رہے گا۔
انگریز برصغیر پاک و ہند کو سونے کی چڑیا کہا کرتے تھے لیکن انگریزوں نے ” تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپنائی، خصوصی طور پر مسلمانوں میں مختلف مسالک پیدا کروائے، مسلمانوں اور ہندوں میں اختلافات پیدا کیے جو لوگ ایک ہی گلی میں پیدا ہوئے تھے ، جو ایک دوسرے کے لنگوٹے اور یاروبیلی تھے ، ان کو آپس میں دشمن بنایا، پر امن اور محبت کرنے والے لوگوں میں نفرت کا بیج بویا، جو لوگ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے،وہ ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے، اسی طرح ہندو مسلمان صدیوں سے مل کر رہتے تھے لین دین اور کاروبار کیا کرتے تھے ، ان کے درمیان بغض پیدا کردیا۔”تقسیم کرو اور حکومت کرو” پالیسی کے باعث معاشرتی نقصانات کے ساتھ ساتھ جانی اور معاشی نقصانات بہت زیادہ ہوئے ، اس پالیسی کے باعث اب تک دنیا کے اس خطے میں کروڑوں انسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ انگریزوں کے آنے سے قبل برصغیر پاک و ہند میں بے روزگاری نہیں تھی ، لوگ کام کاج ، روزگار اور کاروبار کیا کرتے تھے۔
1947 میں اسلام کے نام پر پاکستان معرض وجود میں آیا، اسلام ایک فطری مذہب ہے اور اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے،اس میں ہر مسئلے کا حل ہے ، اسلام میں مرد و عورت پر تعلیم و تربیت فرض ہے، اسلام میں صرف چار ٹیکس ہیں،باقی غیر شرعی اور غیر اسلامی ٹیکسوں کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے، صرف شرعی اور اسلامی ٹیکسوں سے ہی ترقی و خوشحالی ممکن ہے۔ پاکستان اسلام کے نام سے قائم ہوا ، 77سال بیت گئے لیکن اسلام کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ سود اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ کے مترادف ہے لیکن یہاں پر عملا سودی نظام قائم ہے اور ہر سال بجٹ کا بیشتر حصہ سود کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہاں ماہرین اقتصادیات ایسے ہیں جن کو آئی ایم ایف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور نہ ہی کچھ سمجھ آتا ہے ،وہ تمام مسائل کا حل آئی ایم ایف کو ہی سمجھتے ہیں حالانکہ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی معیشت اور انسانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے دبا اور شرائط کے باعث بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات ناقابل برداشت حد تک مہنگی ہوچکی ہیں اور اسی طرح بہت زیادہ اور ظالمانہ ٹیکس نافذ کیے چکےہیں،جس سے ملک وملت کی ترقی ، خوشحالی اور امن کے امکانات تقریبا ختم کردیے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ملک چھوڑنے کے لیے تگ و دو کررہے ہیں ۔ دنیا کے ذہین ترین نوجوان مایوسی کے عالم میں ہیں، جوان ڈگری لیے دربدر ہیں لیکن ان کو ملازمت نہیں مل رہی ہےاور سرکاری ملازمت ملنا محال ہے۔ دوسری طرف ایک مخصوص طبقہ غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں کررہا ہے اور یہی طبقہ ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں سمیت ملک سے باہر رہتا ہے، ان کی جائز وناجائز دولت اور جائیدادیں سب کچھ ملک سے باہر ہے۔ اسی طبقے نے آئی پی پی ایز اور دیگر ایسے ایسے معاہدے کیے ہیں جو کسی لحاظ سے ملک وملت کےلیے سودمند نہیں ہیں۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے لیے ایک عام مزدور جتنا معاوضہ مقرر ہوا، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق سے قمیض کے بارے میں پوچھا گیا لیکن وطن عزیز پاکستان میں غریب عوام کے سوا کسی سے پوچھنے کی کوئی جسارت نہیں کرسکتا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ قدرتی دولت سے مالامال ملک مقروض ہوچکا ہے، مخصوص طبقے کے علاہ باقی لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات ہی مشکلات ہیں لیکن سدا وقت ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ تبدیلی فطری عمل ہے، اب تقریبا نوے فیصد لوگوں کو سب کچھ سمجھ میں آچکا ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ مزید نقصانات سے بچیں اور اس خطے میں انسان دشمن پالیسی ترک کریں، مختلف ہتھکنڈوں سے لوگوں کو مزید دبانے کی پالیسی چھوڑیں کیونکہ معروف سائنسدان نیوٹن کے قانون حرکت کے مطابق ہر عمل کا در عمل ہوتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھیں، غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں ختم کریں، کسی کو غریب لوگوں کے ٹیکسوں پر مراعات نہیں ملنی چاہیے، عوام کا پیسہ صرف اور صرف عوام پر خرچ کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف سے ظالمانہ شرائط پر مزید قرضے نہ لیں بلکہ عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیاں چھوڑیں۔عوام کے ٹیکسوں پر مراعاتیں یعنی عیاشیاں ترک کرنے سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ، تباہی و بربادی کا نظام یعنی سودی نظام کو فی الفور ختم کریں۔ ملک سے باہر دولت کو اپنے ملک میں لایا جائے ، ملک سے باہر رہنے والوں کی پنشن وغیرہ ختم کی جائے، جو لوگ پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے ہیں ، ان کو غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیاشیوں کا کوئی حق نہیں ہے۔پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین اور قدرتی دولت سے مالامال ملک ہے،اس میں ترقی اور خوشحالی کے مواقع بہت زیادہ ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہر صورت اور ہر لحاظ سے ملکی مفادات کو مقدم رکھا جائے ۔ پاکستان زندہ باد