ملک کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور سیاستدان اور پارٹیاں آپس میں دست وگریبان ہیں ۔ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہے ، کام کی ایک بھی بات نہ ہے ۔ ملکی نازک صورتحال پر کسی کی بھی کوئی خاص نظر نہ ہے۔ ہر ایک کو بس سیاست کی ہی فکر ہے ۔ ایک عام فرد سے لے کر سیاستدان تک تجربہ کاربنا پھرتا ہے ،جو دل میں آتا ہے کہے جارہا ہے ۔ کیا سچ کیا جھوٹ کسی کوکوئی سروکار نہیں ہے۔ایک عام فرد کو کیسے سمجھائیں یہاں پر تو باتوں ،دعوﺅں اور وعدوں کی بابت جتنا سیاستدان باتیں کرتے ہیں دوسرااورکوئی نہیں کرتا ہے۔ کوئی کچھ تو کوئی کچھ کہہ رہا ہے ۔ کوئی ایک بات کرتا ہے تو دوسرا کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے ۔کوئی مخصوص نشستوں پر کس کو ملنی چاہئیں کس کو نہیں پر من مرضی کے تجزیے کررہا ہے تو کوئی الیکشن ٹربیونل کی فیصلوں کے آنے کے حوالے سے مطمئن ہے کہ فیصلے مبنی بر انصاف اور عوامی امنگوں کے عین مطابق آئیں گے۔ کوئی حکومت کے جلد جانے کی پشین گوئی کررہا ہے تو کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت تیار کھڑی جیسی باتیں بتا رہا ہے ۔کوئی پی ڈی ایم حکومت کے رہ جانے کی خوشخبریاں سنا رہا ہے تو کوئی پی ٹی آئی کے آنے کی امید لیے بیٹھا ہے ۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ جس نے ملکی صورتحال کو بری طرح ڈسٹرب کیا ہو ا ہے اور چین اور سکون ایک پل بھی نہیں ہے۔ لوگ مہنگائی ، بے روزگاری اور بجلی کے بلوں سے تنگ نظر آتے ہیں اور مرجھائے چہروں کے ساتھ پریشان حال دکھائی دیتے ہیںاور ہمارے حکمران اور اپوزیشن ارکان اپنے ہی مزے میں ہیں۔ دیکھا جائے تو حقیقی طور پر ان دونوں میں سے کسی کو بھی عوامی فکر نہیں ہے ۔سب کو صرف اور صرف اپنی ہی پڑی ہوئی ہے ۔ کہتے ہیں کہ حکومت کو اقتدار کی کوئی خواہش نہیں ہے ۔بانی پی ٹی آئی اقتدار کیلئے مرے جارہے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم اقتدار میں ہے تو بغیر خواہش تو ایسا نہیں ہے ۔رہی یہ بات کہ خواہش نہیں ہے بھی غلط ہے،اقتدار چھن جانے کے غم میں پتلی سی ہورہی ہے۔مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنا بھی اسے ہضم نہیں ہورہاہے۔الیکشن ٹربیونل فیصلے بھی ان کی مرضی کے اور جیسے یہ چاہیں لانا چاہتے ہیں۔ اقتدار قائم رہے اور کوئی پریشانی باقی نہ رہے کیلئے بہت دیرکئے سابقہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے تین بڑوں صدرمملکت، وزیر اعظم ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی پر غداری کے مقدمے آرٹیکل 6لگانے اور جماعتی پابندی کی باتیں کرتی ہے۔ دن رات حکومت اپوزیشن کاا راگ الاپتی رہتی ہے ،ہرالزام پی ٹی آئی پر دھرتی ہے اور پھر بھی اقتدار اس کی خواہش نہیں مجبوری بتاتی ہے ۔ کیا عجیب بات کرتی ہے ۔ دوسروں کی اقتدار کی خواہش پر اتنا برہم کیوں ؟ بھلاکون ہے جو اقتدار کی خواہش نہیں رکھتاہے ، ہر پارٹی کی دیرینہ خواہش یہی ہے کہ انہیں اقتدار ملے ۔انہیں اقتدار کی خواہش خود، اقتدار میں رہ کر کیسی باتیں کرتے ہیں۔ایسی باتیں پی ڈی ایم کو زیب نہیں دیتی ہیں کہ علمی و عقلی باتوں کا جواب ایسے بے پرکی باتیں اُڑا کرکریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار ایک نشہ ہے جس میں ہر ایک سر سے لے کر پیرتک لتھڑا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کو دل نہیں کرتا ہے۔ہماری تمام سیاسی جماعتیں جو اقتدار انجوائے کر چکی ہیں اُن کا حال یہی ہے کہ بغیر اقتدار رہ نہیں پاتی ہیں جب اپنا اقتدار اور تختہ ڈانوں ڈول دیکھتی ہے تو مسلسل شور مچاتی ہیں کہ دوسرے اقتدار کیلئے مرے جارہے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ بتائیں کہ اب ہمارا اقتدار سے جانا ٹھہر گیا ہے اور دوسرا اقتدار میں آرہا ہے ۔ 1947 سے 1971تک اور 1971 سے لے کر اب تک یہی وہ باتیں ہیں کہ مسلسل 75سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اقتدار پاتے بھی ہیں اور اقتدار سے جاتے بھی ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مختلف حربے استعمال بھی کرتے ہیں اور جواب میں دوسروں کا حق بھی کھاتے ہیں اور سزابھی پاتے ہیں۔ اقتدار کے حصول کیلئے کبھی آرٹی ایس سسٹم بٹھا دیتے ہیں تو کبھی پورا سسٹم ہی بٹھا دیتے ہیں۔ فارم 45کے بجائے فارم 47والی حکومت بناد یتے ہیں اور اقتدار کے خواہشمندپھر بھی ذرا سا بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اپنے وہیں کا وہیں کھڑا ہے ، آگے بڑھتا نہیں ہے۔ حالات جوں کے توں رہتے ہیں ،بہتری آتی نہیں ہے۔ مہنگائی کم ہوتی نہیں ہے ،بے روز گاری سے چھٹکاراملتا نہیں ہے۔ وہی لٹیرے بار بارباریاں بدل کر ہماری قوم کی تقدیر اور زنجیر بنا دئیے گئے ہیں۔ اور پھر ترقی و استحکام نام صرف افتتاحی تختیوں ، پلیٹوں پر سجانے کے کام ہی آتا ہے او رعملی طور پر صرف سراب ہی نظر آتا ہے۔ ایک وزیر اعظم آتا ہے ،اپنا اور قوم کی محرومیوں کا رونا روتا ہے ،ملک اور ملکی خزانے اور قوم کی تقدیر اور پہچان دوسروں کے ہاتھو ں گروی رکھ کر قوم کے وسیع تر مفادات میں اپنے احسان و کام گنواتا ،میں تو اب چلا ،آپ جانے اور یہ دیس اور چلتا بنتا ہے اور دوسراوزیراعظم آتا ہے او رپھر وہ یہ کام سنبھال لیتا ہے ۔یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ایسے میں نصیب اگر جاگتا ہے تو حکمرانوں اور اشرافیہ او ربیوروکریسی کا جو ملکی خزانے کوچاٹ چاٹ کھاتی ہے اورا س میں سے اپنے چمچوں کو بھی نوازتی ہے اور رہی غریب رعایا تو اس کے حصہ میں ایسے میں صرف مہنگائی،بے روزگاری ، یوٹیلٹی بلز او ر لاءاینڈ آرڈر کی خراب صورتحال پر صرف رونا دھونا اور احتجاج کرنا ہی باقی رہتا ہے۔ایسے میں جب عوامی بد دعاﺅں کے نتیجے میں اقتدار سے دھڑن تختہ ہوتے ہیں تو بڑی مشکل سے کرسی اقتدار سے چمٹے ہوئے اترتے ہیں۔
ملکی نازک صورتحال اور سیاستدانوں کا رویہ
