Site icon Daily Pakistan

نظم و ضبط و قانون کی بالادستی: چین بمقابلہ پاکستان

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک پائیدار ترقی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہاں قانون کی غیر مشروط بالادستی اور نظم و ضبط زندگی کا لازمی حصہ نہ بن جائیں۔ چین اور پاکستان کا موازنہ اس اصول کو نہایت واضح انداز میں سامنے لاتا ہے۔ دونوں ممالک آزادی کے بعد معاشی پسماندگی، بیروزگاری اور ادارہ جاتی کمزوری کا شکار تھے، مگر آج ایک دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور دوسرا اب بھی بنیادی انتظامی و معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔چین نے 1949ء میں انقلاب کے بعد سیاسی استحکام قائم کیا اور 1978ء میں ڈینگ ژیاؤپنگ کی قیادت میں اصلاحات و کھلے پن کی پالیسی اختیار کی جس نے غیر ملکی سرمایہ کاری، صنعتی زونز اور برآمدی معیشت کی بنیاد رکھی۔ دوسری طرف پاکستان نے 1947ء میں آزادی حاصل کی مگر ابتدا ہی سے آئینی اور ادارہ جاتی ڈھانچے میں کمزوری، سیاسی عدم استحکام اور مارشل لاء کے ادوار نے ترقی کی رفتار کو محدود رکھا۔چین میں کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی اور 2012ء سے 2023ء تک چالیس لاکھ سے زائد سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ عدالتی نظام تیز رفتار اور فیصلوں پر عمل درآمد سخت ہے، چاہے ملزم کا عہدہ یا اثرورسوخ کچھ بھی ہو۔ عام شہری سے لے کر بڑے صنعتکار تک، قانون کی خلاف ورزی پر فوری سزا ملتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں قوانین کی کمی نہیں مگر نفاذ میں سست روی، سیاسی دباؤ اور بااثر طبقے کا احتساب سے بچ نکلنا عام ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کمزور ہے اور کیسز برسوں لٹکتے رہتے ہیں۔چین کی قومی منصوبہ بندی پانچ سالہ پلانز کے ذریعے ہوتی ہے، معاشی اہداف اور ترقیاتی منصوبے واضح ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداوار، برآمدات اور ٹیکنالوجی میں خود کفالت پر زور دیا جاتا ہے۔ 2024–25 میں چین کا نامیاتی GDP تقریباً 17.8 ٹریلین ڈالر ہے اور فی کس آمدنی تقریباً 12,500 ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جبکہ ترقی کی رفتار پانچ فیصد کے قریب ہے۔ اسکے مقابلے میں پاکستان کا GDP تقریباً 373 ارب ڈالر ہے، فی کس آمدنی محض 1,480 ڈالر، اور ترقی کی رفتار تقریباً تین فیصد کے قریب ہے، جو مہنگائی اور درآمدی انحصار کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
چین میں ٹریفک قوانین سے لے کر عوامی مقامات پر صفائی تک سخت نگرانی ہوتی ہے۔ سی سی ٹی وی اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ سے جرائم کی شرح کم رکھی گئی ہے۔ بچوں کی تعلیم میں اجتماعی نظم و ضبط کی تربیت شامل ہے۔ پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد موقع اور ضرورت پر منحصر ہے۔ ٹریفک اور شہری نظم میں بے قاعدگی عام ہے، اور نصاب میں قانون کی پاسداری پر زور نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے گزشتہ چالیس برسوں میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا، جبکہ پاکستان میں آج بھی آبادی کا بڑا حصہ بنیادی سہولیات، معیاری تعلیم اور صحت سے محروم ہے۔ چین میں عوام ریاست کے نظم کو اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ پاکستان میں اکثر لوگ قانون کو محض ایک رکاوٹ یا طاقتور کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اس تقابل سے کئی اسباق نکلتے ہیں۔ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے اور کسی عہدے یا تعلق کی بنیاد پر رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے مکمل آزاد کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی نصاب اور میڈیا کے ذریعے نظم و ضبط کو معاشرتی اقدار کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ پالیسیوں میں تسلسل اور قومی مفاد کو ذاتی یا جماعتی مفاد پر ترجیح دی جانی چاہیے۔بالآخر یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ کسی بھی قوم کی اصل طاقت اس کی فوجی قوت یا وسائل میں نہیں بلکہ اس کے نظم و ضبط اور قانون کی غیر مشروط بالادستی میں پوشیدہ ہے۔ چین نے یہ راستہ صبر، تسلسل اور سخت احتساب کے ذریعے طے کیا اور آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، جبکہ پاکستان ابھی بھی اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم وقتی مصلحتوں اور سیاسی مفادات کے اسیر رہیں گے یا ایک طویل مگر پائیدار سفر اختیار کر کے آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ملک دیں گے جہاں قانون سب پر یکساں لاگو ہو، ادارے آزاد ہوں، اور ترقی صرف خواب نہیں بلکہ حقیقت بن جائے۔

Exit mobile version