کچھ سانحات اتنے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ بیان نہیں کیئے جا سکتے،معصوم بچے عمار کا معاملہ اور سانحہ ارتحال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ بیان کرنا انتہائی مشکل سا محسوس ہوتاہے۔جب بھی اس معصوم بچے کی شکل میرے سامنے آتی ہے تو کانپ اور لرز سا جاتا ہوں اور بے اختیار سوچتا ہوں کہ اس کی یہ موت کس کے سر پر۔۔۔ریاست یا عدلیہ پر،جو اس بچے کی بیماری کی حالت میں اس پر رحم نہ کھا سکی،اسے اس کا باپ نہ ملا سکی جبکہ معاملہ صاحب حیثیت افراد کا ہوتو ڈکلیئر مجرم ہوکر بھی اسے علاج کے بہانے لندن بھیج دے اور اب تک نہ پوچھے کہ مفرور مجرم کدھر ہے اور یہاں پر ایک بچے کا باپ سانحہ 9 مئی کے ناکردہ گناہوں میں پھنسا سزا بھگت رہاہے اور اس کا بچہ اداس و بیمار پڑا اسے پکارتا اور اپنے پاس چاہتا ہے تو ریاست اپنی ضد اور انا کے ساتھ یہاں سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ وقتی بھی ریلیف نہ دے سکی اور جنازے پر بھیجا بھی نہ بھیجے جیسا تھا۔ایسے قانون ظالم ہوتے ہیں اور ختم ہونے چاہیے۔کیا عجیب بات ہے کہ بڑے لوگوں کا کوئی مرے تو تین دن،ہفتہ ہفتہ تک کا ریلیف اور عام آدمی کے لیے بچہ قبر میں اور ریلیف ختم ہوجاتا ہے۔میں اس بچے کی موت پر نوحہ کناں ہوئے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی پوچھتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے کہ ایک شخص کا بچہ سسک سسک کر مررہاہے اور قانون و انصاف میں وقتی ریلیف کی بھی گنجائش نہیں ملتی ہے اوریہی معاملہ اگر بڑے لوگوں کے ساتھ ہو تو قانون ہی یکدم دھڑم ہوجاتا ہے۔آخر ایسا کیوں؟امیر اور غریب کے درمیان یہ فرق کیوں؟ دل میں یہ کسک ہی رہ گئی کہ کاش فاروق بھی ان مکار فراڈ سیاستدانوں کی طرح بیمار ہوکر اس بچے تک جا پہنچتے کہ اسے کچھ حوصلہ ہوتا کہ باپ آگیا ہے مگر افسوس کہ ایسا ممکن نہ تھا کہ ہمارے مردہ و افسودہ سسٹم میں ایسی لگائی بازی کی گنجائش قطعی نہ،ہاں لٹیروں کےلئے ریلیف اور سہولتیں بے شمار ہیں۔اگر کہا جائے کہ ہمارا ریاستی سسٹم ایسے کرپٹ سیاستدانوں کے گرد گھومتا بلکہ چکر لگاتاہے تو شاید غلط نہ ہو ۔ ہم کیسے لوگ ہیں کہ سچائی کی بنیاد پر فقط اک بیمار بچے سے باپ کی ملاقات کی گنجائش نہیں نکال پاتے،وقتی ریلیف نہیں دیتے ہیں جبکہ سیاستدانوں کو ڈاکٹروں کی فرضی من گھڑت جھوٹی رپورٹس پر بیماری سے لیکر ہر طرح کا ریلیف دے دیتے ہیں ۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اتنی بے رحم کیسے ہوسکتی ہے کہ ایک معصوم بیمار بچے کو اس کا باپ تک نہ ملا سکی ۔ یہ تصور ہی کتنا رونگٹے کھڑے کردینے والا ہوگا کہ جب بچہ حالت بیماری میں اپنے آپ کو اکیلا پائے اپنے باپ کو بے یارو مدد گار پکارتاہوگا تو اس کے دل اور روح کا منظر کیا ہوگا۔ایسے میں اس کی چیخیں ضرور عرش معلی تک پہنچی ہوں گی کہ ریاست کو تو ترس نہ آیا،پیدا کرنے والے نے اسے اپنی رحمت الٰہی کی آغوش میں ضرور لے لیا۔اس کے ہر دکھ درد کا مداواکرتا اسے ہر تکلیف و پریشانی سے نکال دیا۔یقینا اس بچے کا غم بہت بڑا تھا ، ناقابل بیان،بہت ہی درد ناک۔بچہ اللہ کے حضور پیش ہوگیا مگر ہماری ریاست ، مقننہ اور بحیثیت معاشرہ ہم سب کو ننگا کرگیا۔یہ بچہ مر کر بھی امر ہوگیا مگر جاتے جاتے ہمارے پورے ریاستی جبر کو بری طرح بے نقاب کرگیا ۔ اے ننھے عمار!ہم آپ سے شرمندہ ہیں کہ اس ریاست اور بے رحم مردہ نظام میں آپ کو انصاف نہ دے سکے اور آپ کو یوں ہی بغیر انصاف اللہ کے حضور جانا پڑا۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کا قہر ٹوٹ نہ پڑے۔
اک پتر بازی ہار گیا
جند پیو دے ناں تو وارگیا
کوئی معافی منگ کے گھر آیا
کوئی ست سمندر پار گیا
اک گھر دا دیوا بجیا اے
دس تیرا کیہ ”سرکار گیا“
کوئی ویکھے اج دے یوسف نوں
کنج ہجر دا صدمہ ہارگیا
اٹھ یار حکیما نس چلئے
ایتھے جیونا ہو دشوار گیا