Site icon Daily Pakistan

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اور چیلنجز

نگران وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ جس انداز میں ملکی مسائل کو حل کرنے کےلئے دل وجان سے کوشاں ہیں اس سے بجا طور پر ان کے اخلاص کا پتہ چلتا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ نگران حکومت کی بنیادی زمہ داری آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے سپر کرنا ہے مگر ہمارے ہاں کے زمینی حقائق کافی مختلف ہیں، مثلا یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملکی معیشت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے ، آئی ایم ایف نے جس طرح پاکستان پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نافذ کررکھا ہے اس پر عمل درآمد نہ کرکے پاکستان کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں،ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتیں قومی میڈیا میں تواتر کے ساتھ یہ بیانیہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں کہ عام انتخابات کا انعقاد اس وقت تک مشکوک ہے جب تک الیکشن کمیشن واضح طور پر کسی تاریخ کا اعلان نہیں کرڈالے ، بعض سیاسی رہنما تو یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ نگران حکومت کی مدت میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہے ، شائد یہی وجہ ہے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے جبکہ نگران حکومت کا کام ہے کہ وہ اس کو ممکن حد تمام وسائل مہیا کرے ، نگران وزیر اعظم پاکستان یہ بھی بتا چکے کہ الیکشن نہ تو کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہوگا نہ اس کے حق میں ، فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ وہ زمام اقتدار کس سیاسی جماعت کو دینا چاہتے ہیں، غیر ملکی میڈیا چنیلز کو انٹرویو دیتے ہوئے انوار الحق کاکڑ واشگاف الفاظ میں کہہ چکے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں البتہ 9 مئی کے واقعات میں جو رہنما ، کارکن یا کسی سرکاری وغیر سرکاری ادارے کے افراد ملوث ہوئے تو ان خلاف کاروائی کی کی جائے گی ، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر تواتر سے یہ بیانیہ ترتیب دے چکی کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست دینے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے ، مذکورہ معاملہ کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ آج سابق وزیر اعظم اور ان کے ہم خیال قومی اداروں کو ہدف بنانے میں پیش پیش ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر تحریک انصاف کے حامیوں کے اکاﺅنٹس میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے وفاعی اداروں اور ان کے سربراہان کےلئے ایسے القابات استعمال کیے جارہے ہیں جو کسی قانونی ، اخلاقی یا سیاسی قوائد وضوابط پر پورا نہیں اترتے ، نگران وزیر اعظم کو صورت حال کا باخوبی احساس ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ کہہ رہے کہ حکومت اظہار خیال کی آزادی پر نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے بھی کوشاں ہے ، انوار الحق کاکڑ کا البتہ یہ بھی کہنا تھا کہ کسی فرد یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے قومی سلامتی سے گھناﺅنا کھیلا کھیلے ۔ نگران وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں جس طرح پاکستان کے تاریخ پس منظر اور قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر مقدمہ لڑا وہ بجا طور پر قابل تحسین ہے، انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ میں ایران ، سعودی عرب سمیت کئی مسلم وغیر مسلم حکمرانوں سے ملاقات کرکے پاکستان کا موقف پیش کیا، نگران وزیر اعظم کا آئی ایم ایف کی خاتون عہدیدار سے ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا کہ عالمی ادارے کو باور کروایا جائے کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کو پورا کرنے کےلئے کوشاں ہے مگر بعض رکاوٹیں بہرکیف موجود ہیں ، نگران وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو بھی کشمیریوں کی مرضی ومنشا کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ، نگران وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات کے فروغ کا خواہاں ہے ، انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ علاقائی اور عالمی امن قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ، نگران وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے مگر اس کے ضروری ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اپنی زمہ داریوں کا احساس کرے ، اقوام متحدہ میں انوارالحق کاکڑ نے عالمی موسیماتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو درپیش مشکلات کا زکر بھی خوب کیا ، نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اقوام عالم باخوبی جانتی ہیں کہ موسیماتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ، خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی اعتراف کرچکے کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا پھر تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت ہر چیلنج عالمی برداری کے بھرپور تعاون کا طلب گار ہے، نگران وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کہنا تھا کہ آج عالمی چیلنجز سے نمٹنے کےلئے عالمی برداری کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، انوارالحق کاکڑ نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو آگے بڑھ کر ترقی پذیر ممالک کی مشکلات کم کرنے کےلئے کردار ادا کرنا چاہے وگرنہ عالمی سطح پر مساوات اور دوطرفہ تعاون جیسے الفاظ اپنی اہمیت کھو دینگے۔

Exit mobile version