یہ امر قابل توجہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں 17 اگست 2025 کو ہونے والا خالصتان ریفرنڈم ایک ایسا تاریخی موقع تھا جس نے نہ صرف دنیا بھر میں موجود سکھ برادری کو متحد کیا بلکہ بھارت کے غیر جمہوری چہرے کو عالمی سطح پر بے نقاب بھی کیا۔تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ سکھ فار جسٹس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس ریفرنڈم میں ہزاروں سکھوں نے شرکت کی اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ ریفرنڈم دراصل ایک پرامن اور منظم طریقے سے آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کا عملی مظاہرہ تھا، جس نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ سکھ قوم کا عزم اور اتحاد کسی دباؤ، پروپیگنڈے یا جبر سے کم نہیں کیا جا سکتا۔مبصرین کے مطابق امریکہ جیسے اہم جمہوری ملک میں یہ ریفرنڈم آزادی اظہار اور حقِ اجتماع کے آئینی اصولوں کے تحت منعقد ہوا، جس نے بھارت کے لیے ایک بڑی سفارتی اور سیاسی ناکامی کی صورت اختیار کی۔یاد رہے کہ امریکی حکام نے نہ صرف اس ریفرنڈم کو سہولت فراہم کی بلکہ بھارتی مداخلت کے خدشات کے باوجود شرکاء کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات بھی کیے۔ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خالصتان تحریک کے اہم رہنما گرپتَوَنت سنگھ پنوں کو ایک خط کے ذریعے امریکی شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس اقدام نے واضح کیا کہ بھارت کے پراپیگنڈے کے باوجود امریکہ سکھ کمیونٹی کے جمہوری حق کو تسلیم کرتا ہے یوں اس ریفرنڈم نے فوری طور پر عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اسے ”خالصتان کے نظریے کی بھرپور حمایت” قرار دیا۔ امریکہ کے مختلف حصوں سے آئے سکھوں نے نیشنل مال میں جمع ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بھارت کی گولیاں ان کے بیلٹ کو شکست نہیں دے سکتیں۔مبصرین کے بقول یہ منظر محض ایک انتخابی عمل نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی ور تاریخی اعلان تھا کہ سکھ قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق رکھتی ہے۔ریفرنڈم کے طویل المدتی اثرات بھی نہایت اہم ہیں۔ سکھ فار جسٹس نے اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے ان ریفرنڈمز کے نتائج 2026 میں اقوامِ متحدہ میں پیش کیے جائیں گے، تاکہ عالمی قوانین کے تحت خود ارادیت کے حق کو ثابت کیا جا سکے۔واضح ہو کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل کونویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (ICCPR) کے آرٹیکل 1 کے مطابق ہر قوم کو خود مختاری کا حق حاصل ہے، اور سکھ اسی اصول کے تحت اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی ضمن میں دنیا بھر میں ہونے والے ریفرنڈمز جن میں برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ اور نیوزی لینڈ شامل ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک عالمی تحریک ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔سفارتی مبصرین کے مطابق مودی حکومت کے لیے یہ صورتحال سخت شرمندگی کا باعث بنی کیوں کہ بھارت نے خالصتان تحریک کو بدنام کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا، کبھی اسے دہشت گردی کا لیبل دیا، کبھی خفیہ آپریشنز کے ذریعے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، اور کبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس تحریک کے مواد کو ہٹا دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوگل، یوٹیوب اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز نے بھارت کے دباؤ کو مسترد کر دیا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا خالصتان تحریک کو پرامن سیاسی جدوجہد سمجھتی ہے اور بھارت کے پروپیگنڈے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت کی خفیہ سرگرمیاں بھی عالمی سطح پر بے نقاب ہو رہی ہیں۔ کینیڈا کے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے 2023 میں اعلان کیا تھا کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے قابل اعتبار شواہد موجود ہیں۔ اس اعلان کے بعد بھارت اور کینیڈا کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ اسی دوران برطانیہ میں اوتار سنگھ کھنڈا کی مشکوک حالات میں موت نے مزید سوالات اٹھائے، جبکہ امریکہ میں بھارتی ایجنٹ نکھل گپتا اور RAW افسر وکاس یادو کو گرپتَوَنت سنگھ پنوں کے قتل کی سازش پر چارج شیٹ کیا گیا۔ آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک نے بھی بھارتی خفیہ نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا جو سکھ کارکنوں کی ریکی اور دھمکیوں میں ملوث تھے۔ یہ سب واقعات بھارت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس ضمن میں واشنگٹن میں ہونے والا یہ ریفرنڈم اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ یہ مودی سرکار کے عالمی اثر و رسوخ کے دعوؤں پر ایک کاری ضرب تھا۔ بھارت بارہا سکھ رہنماؤں کی حوالگی کے لیے مغربی ممالک سے درخواستیں کرتا رہا، مگر ان عدالتوں نے انہیں سیاسی بنیادوں پر مسترد کر دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی جھوٹی مہم دنیاکے سامنے قابل قبول نہیں۔ مزید یہ کہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک ان ریفرنڈمز کو غیر قانونی نہیں سمجھتے بلکہ اسے سیاسی آزادی کی ایک جائز شکل مانتے ہیں۔ سکھ قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے حقِ خود ارادیت کی جدوجہد پرامن، جمہوری اور عالمی قوانین کے تحت جاری رکھے گی۔ یہ لمحہ بھارت کے لیے ایک شرمندگی اور سکھوں کے لیے ایک نئی امید کی علامت ہے، جو مستقبل میں خالصتان کی تحریک کو مزید تقویت بخشے گا۔
واشنگٹن ڈی سی میں خالصتان ریفرنڈم

