وزیراعظم دو روزہ دورہ سعودی عرب مکمل کر کے گزشتہ روزپاکستان پہنچ گئے،یہ دورہ انتہائی اہم رہا جہاں انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کیا وہاں انہوں نے سائیڈ لائن پر کئی اہم رہنماو¿ں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے اختتامی سیشن سے جب خطاب کیا اور اپنی گفتگو کے آغاز پر ہی غزہ کی صورتحال پر بات کی توہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ میں مستقل امن قائم کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔انہوں نے عالمی برادری کو متوجہ کیا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک شدید متاثر ہوئے ۔وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی بات کی اور کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنج کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان شدید متاثر ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2022 میں پاکستان میں سیلاب آیا اور پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ ہمیں اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونا ہے، مشکلات ہیں لیکن ناممکن کچھ نہیں ہے، ہم بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرانے کے خواہاں ہیں، ملک میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کر رہے ہیں، ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کفایت شعاری کی طرف جانا ہو گا، سعودی عرب سمیت دوست ممالک نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کا ایک بڑا اثاثہ موجود ہے، کروڑوں کی تعداد میں یہ نوجوان ہمارے پاس ایک بڑا موقع ہیں جنہیں ہم جدید ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل ٹیکنالوجی اور فنی تربیت فراہم کرکے اپنا روزگار شروع کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں تاکہ وہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دے سکیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم اپنی زراعت کو ترقی دے سکتے ہیں، کسانوں کو معیاری بیج اور کھاد کی فراہمی کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں، ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہے، اس کیلئے برآمد کنندگان کو سہولیات اور مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان کے پاس گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن ان میں کمی آرہی ہے، قدرتی وسائل ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں، پاکستان کے پاس قیمتی معدنیات اور زرخیز زمین موجود ہے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں غزہ سمیت اہم امور پر کھل کر بات کی،خاص کر مسئلہ فلسطین پر ان کا فکر انگیز خطاب توجہ سے سنا گیا۔سعودی عرب میں شروع ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں ثالث کا کرداد ادا کرنے والے متعدد فریقین نے شرکت کی۔ سعودی عرب نے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے عالمی معیشت پر مرتب ہونےوالے تباہ کن اثرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی تنازعات عالمی معیشت کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔فورم کے مہمانوں کی فہرست میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن، فلسطینی رہنما اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کرنے والے دوسرے ممالک کے اعلی عہدے دار بھی شامل تھے۔ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے دو روزہ ورلڈ اکنامک فورم کے پہلے پینل مباحثوں میں سے ایک سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ اور یوکرین سمیت دیگر مقامات پر جنگوں اور تنازعات نے دنیا کی معاشی ترقی کی رفتار پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں، عالمی معیشت پر دبا کا ماحول ہے اور یہ علاقائی تنازعات عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔اس دورے حوالے سے شہباز شریف نے پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کی جانب سے اقتصادی شراکت داری بڑھانے میں دلچسپی کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں جلد اپنا کام مکمل کر لیں گی اور بہت سے باہمی مفاد پر مبنی منصوبے شروع کئے جائیں گے ، انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبہ بالخصوص موجودہ انفراسٹرکچر کی تعمیر و بہتری ، قابل تجدید توانائی پر توجہ بڑھانے اور پورے توانائی کے ایکو سسٹم میں افادیت لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بھارت کا مکروہ چہرہ پھر بے نقاب
واشنگٹن پوسٹ نے بھارتی وزیراعظم کا ایک بار پھر بھانڈا پھوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت کی جاسوسی ایجنسی را کے ایک افسر وکرم یادیو نے ایک کرائے کی ہٹ ٹیم کو اس سلسلے میں ہدایات بھیجیں جب گزشتہ سال وائٹ ہاو¿س میں نریندر مودی کی مہمان نوازی کی جا رہی تھی۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک طرف نریندر مودی امریکی خوشامد میں مگن تھے دوسری طرف بھارت کی انٹیلی جنس سروس کا ایک افسر امریکا میں نریندر مودی کےخلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے ناقدین میں سے ایک کو قتل کروانے کے لیے کرائے کی ٹیم کو حتمی ہدایات دے رہا تھا۔سی آئی اے،ایف بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کی وسیع تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر موجودہ اور سابق مغربی سیکیورٹی حکام کے مطابق اس میں سینئر را حکام کو بھی ملوث کیا گیا ہے۔ان رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ گرپتونت سنگھ پنوں کو نشانہ بنانے والے آپریشن کی منظوری اس وقت کے را کے سربراہ سمنت گوئل نے دی تھی۔اخبار نے نوٹ کیا کہ امریکا اور کینیڈا میں بھارتی شہریوں کے قتل کی سازشیں دوسرے ممالک میں تحفظ حاصل کرنے والے اختلافی گروپوں کے خلاف بھارتی اقدامات کی بڑھتی ہوئی لہر کا حصہ ہیں۔ رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ امریکی جاسوسی ایجنسیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو شاید را کے سکھ کارکنوں کو قتل کرنے کے منصوبے کا علم تھا ۔مذکورہ رپورٹ میں را کے ایجنٹس کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کی سازشوں کی چونکا دینے والی تفصیلات کا بھی پردہ فاش کیا گیا ہے جس میں امریکا اور کینیڈا میں رہنے والے نریندر مودی کے ناقدین کو بھی نشانہ بنایا گیا، اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ بھارت اپنی سرحدوں سے باہر اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کس حد تک گیا۔
1.1 ارب ڈالر قسط کی منظوری
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کا دوسرا جائزہ مکمل کر لیا ہے جس سے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی فوری قسط کا اجرا ہوسکے گا اور اس پروگرام کے تحت پاکستان کو ملنے والی مجموعی رقم 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔اسٹینڈ بائی پروگرام کے تحت دوسرے اور حتمی جائزے سے پاکستانی حکام کی مضبوط ترپالیسی کوششوں کی عکاسی ہوتی ہے جس سے پاکستانی معیشت کے استحکام کو مدد ملی ہے اور کچھ ترقی بحال ہوئی ہے۔ مسلسل بیرونی حمایت ضروری ہوگی، انسداد بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، وفاقی اخراجات میں تحدید ہوئی، طویل مدتی شمولیتی ترقی اور رزوگار کےلئے ساختیاتی اصلاحات تیز کرنا ہونگی۔ پاکستان کو استحکام سے مضبوط اور پائیدار بحالی کیلئے حکام کو اپنی پالیسی اور اصلاحاتی کوششوں بشمولی مالی اہداف پر سختی سے عملدرآمد کو بھی جاری رکھنا ہوگا ۔دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کےلئے 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی 1.1ارب ڈالرکی قسط ملنے سے پاکستان میں مزید معاشی استحکام آئےگا ۔پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے میں آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ اہم ثابت ہوا تھا، مشکل فیصلے کے ثمرات معاشی استحکام کی صورت سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم معیشت کو بہتر کرنے کےلئے پوری جان لگا دیں گے، قرض لینا کامیابی نہیں،کامیابی اس دن ہوگی جب قرض سے نجات پائیں گے۔