Site icon Daily Pakistan

وزیراعظم کا شہدا کےلئے بڑے پیکیج کا اعلان

ملک کے دفاع کی خاطر جان کی قربانی دینے والوں کو قوم نے ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا جبکہ حکومتیں کی ان کے لئے خصوصی پیکجز کا اعلان کرتی ہیں،ان شہدا ءکےلئے جتنا بھی کیا جائے وہ کم ہوتا ہے کیونکہ ان ہی کے خون کے نذرانوں کے باعث ہم سب سکون کی نیند سوتے ہیں۔گزشتہ روزوزیراعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی حکومت کی طرف سے فرض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے سول و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور اہلکاروں کیلئے شہدا پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے عظیم سپوت جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں اور سمگلروں کا مقابلہ کرتے ہیں، یہ پیکیج حکومت کا کوئی احسان نہیں، شہدا کے ورثا کا حق ہے ۔ وزیراعظم ڈیرہ اسماعیل خان میں سمگلروں کی طرف سے دہشت گرد حملہ میں شہید ہونے والے سید حسنین علی ترمذی کی رہائش گاہ پر گئے اور انہیں خراج عقید پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔پنجاب کے بعد اب وفاق میں بھی جام شہادت نوش کرنے والے افسران و اہلکاروں کے لواحقین کیلئے شہدا پیکیج کا آغاز کر رہے ہیں ۔اب ان کے بچوں کے تعلیم و علاج کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور ملک دشمن سمگلرز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ،وہ قوم کے ہیرو ہیں ۔ ان کے والد کے صبر کو سلام پیش کرتا ہوں۔ پوری قوم بھی شہید کے والد کو سلام پیش کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی بہترین تربیت کی ۔ سمگلنگ اور سمگلروں کا مکمل خاتمہ یقینی بنائیں گے ۔ملک کے عظیم سپوت جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں اور سمگلروں کا مقابلہ کرتے ہیں اور لاکھوں بچوں کو محفوظ بنا کر انہیں یتیم ہونے سے بچاتے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیر داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ خیبرپختونخوا، پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں ، پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سمگلروں کا قلع قمع کریں۔ معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے سمگلنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔یہ ایک ایسا ناسور ہے جس کو جڑ سے ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری اور اولین فرض ہے ۔ انسداد سمگلنگ کےلئے تعاون پر انہوں نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی طرف سے یہ پیغام لے کر آیا ہوں کہ شہید انسپکٹر قوم کا ہیرو ہے اور ہمیں ان پر فخر ہے ۔ڈیرہ اسماعیل خان کی کی جغرافیائی پوزیشن بہت اہم ہے افغانستان کے پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں تک رسائی کے لئے ملک دشمن عناصر کی اہم گزر گاہ ڈی آئی خان ہے،جہاں سکیورٹی پہ مامور اہلکار ان کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیںاور وہ اپنی جان کی پراوہ کئے بغیرملک دشمن عناصر کی مذموم کرروائیوں کو ناکام بناتے ہیں۔حالیہ دو واقعات میں ڈیرہ اسماعیل خان میں کسٹمز اہلکاروں کی 8 شہادتیں ہوئی ہیں ۔اس قسم کے واقعات کی روک تھام بے حد ضروری ہے اور سکیورٹی کے فول پروف وسائل کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سمگلنگ ہو یا عمومی دہشت گر د انکی سرگرمیاں ہماری مشترکہ دشمن ہیں، اسکا خاتمہ بھی کرنا ہوگا ، دہشت گردوں اور سمگلروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ملک کےلئے عظیم قربانی دیتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ کسٹمز اہلکاروں کی سکیورٹی مربوط ہونی چاہئے لیکن سوال ہے کہ یہ کس کا کام ہے وزارت داخلہ جس وسائل کو بروکار لائے،اورپوری کوشش کی جائے کہ اہلکاروں کی سکیورٹی میں کوئی سقم نہ رہے۔وزیراعظم نے اس موقع پر بڑا اعلان کیا کہ ہر شہید کی بیوہ اور بچوں کیلئے ایک مفت گھر فراہم کیا جائے گا، نقد امداد بھی دی جائے گی۔ ان واقعات میں جو سپاہی شہید ہوئے ان کے لواحقین کو ایک ، ایک کروڑ روپے کی نقد امداد دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ 35 لاکھ روپے گھر کی قیمت فراہم کی جائے گی، یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ گھر خریدیں یا نہ خریدیں، بچوں کیلئے تعلیم اور علاج کی سہولت مفت ہو گی۔اسی طرح جام شہادت نوش کرنے والے ڈی ایس پی ،انسپکٹر اور سول افسران کیلئے بھی یہی پیکیج ہو گا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی احسان نہیں ہے، یہ ان کا حق ہے جوا نہیں ملنا چاہئے۔ موجودہ معاشی صورتحال میں اگرچہ یہ امدادی رقم زیادہ نہیں ہے لیکن جب بھی موقع ملا اس پر نظرثانی بھی کی جائے گی۔اس موقع پر شہید کے والد حسین شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نے ان کے گھر آ کر ان کا حوصلہ بڑھایا ہے ،مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹے نے شہادت کو سینے سے لگاتے ہوئے عزت اور شان کے ساتھ قبر میں جانا پسند کیا ۔وزیراعظم نے میرے حوصلے کو تقویت بخشی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ امدادی رقم آ پ کے شہید بیٹے کی عظیم قربانی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی لیکن شہید بیوہ اور بچوں کیلئے حکومت جو کچھ بھی کر سکتی ہے، کرے گی، ان کی تعلیم اور علاج کے اخراجات بھی حکومت برداشت کرے گی۔
امریکی رپورٹ پر پاکستان کا رد عمل
پاکستان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے جاری امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کی متعصبانہ رپورٹ کو مسترد کردیاہے۔ہیومن رائٹس پریکٹسز رپورٹ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے 23اپریل کو جاری کی گئی۔جسکے مطابق 2023 کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی اور2023 میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی خلاف ورزیاں جاری رہیں۔پاکستان نے درست طور پر اسے مسترد کیا ہے یہ رپورٹ امریکہ کی دوہری پالیسی کا عکس ہے۔کیونکہ اس میں غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے،جن کی نشاہدہی وقت کا تقاضہ ہے۔پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ انسانی حقوق سے متعلق 2023کی رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کے برعکس، غیر منصفانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے جاری ہونے والی متعصبانہ رپورٹ مفروضوں کی بنیاد پر مبنی ہے اور اس میں حقائق کے برعکس باتیں درج کی گئیں ہیں۔خارجہ امور کے ماہرین کا ماننا ہے تمام ممالک کو انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انسانی حقوق کو ایک پالیسی کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو انسانی حقوق کے حوالے سے تمام معیارات پر پورا اتر رہا ہو چاہے۔
گرفتار دہشت گرد کے ہوشربا انکشافات
افغان دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ جاری ہے،افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کرنے والے افغان دہشت گرد کے ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 23 اپریل کو ضلع پشین میں ہونے والے سکیورٹی آپریشن میں زخمی دہشت گرد نے انکشاف کیا کہ پشین حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔پشین میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں تین دہشت گرد ہلاک اور ایک زخمی حالت میں گرفتار ہوا تھا۔گرفتاردہشت گرد کا نام حبیب اللہ عرف خالد ولد خان محمد ہے جوافغانستان کے علاقے سپن بولدک کا رہائشی ہے، جس نے اعتراف کیا کہ حملے کیلئے راکٹ لانچر، گرنیڈ اور اسلحہ افغانستان سے فراہم کیا گیا، اور بارڈر تک افغان طالبان نے مکمل مدد فراہم کی۔دہشت گرد کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد احساس ہوا کہ ہمیں ورغلایا گیا تھا جو بہت بڑی غلطی تھی۔دہشت گرد سے حاصل معلومات انتہائی تشویشناک ہیں کہ برادر اسلامی ملک افغانستان کی سر زمین کس طرح پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے،اور اس کپ افسوسناک پہلی یہ ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر انہیں افغان طالبان کی سرپرستی بھی حاسل ہے۔

Exit mobile version