(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس سے آج کے متعصب بھارتی ہندوﺅں اور ہٹلر صفت موددی کو ہم نے اپنے ایک کالم جس کا عنوان تھا” مسلمانوں نے ہندوستان پر بارا سو سال حکومت کی ہے تم سوسال تو پورے کرو“ یہ تب ہوا تھا کہ مسلمانوں کی اقلیت نے اپنی رعایا ہندو اکثریت سے رواداری، مذہبی آزادی اور برابری کا مقام دیا تھا۔ آج بھارت کی متعصب ہند و جماعت آر ایس ایس اور ہٹلر صفت حکمران مودی مسلمان اقلیت کو ختم کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔مودی ظلم کی جتنی چائے چکی چلا لے۔ یاد رکھے کہ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“ اگر ٹیپو سلطان کی بات کی جائے تو اس کی حکومت میں وزیر خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا“ تھا۔ سلطان کا معتمد خاص” لالہ مہتاب رائے سبقت“ نامی ایک ہندو برہمن تھا۔ میسور جنکی فوج کا افسر اعلیٰ ہری سنگھ تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہندو سلطان کی حکومت میں شامل تھے۔ انگریز مورخ ولیم ڈیل رمپل نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ٹیپو سلطان ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مزاحمت کرنے والا سب سے بڑا ہندوستانی تھا۔ اس نے ایسٹ اندیا کمپنی کےساتھ کبھی بھی اتحاد نہیں کیا۔1970ءمیںخود قوم پرست تنظیم راشڑیہ سویم سیوک سنگھ نے کنٹر زبان میں ہندوستان کی تاریخ سے متعلق” بھارت بھارتی“ کا کتابی سلسلہ شائع کیا تھا اس میں ٹیپو سلطان کی تعریف کی گئی اور انہیں محب وطن قرار دیا گیا تھا۔چندن گوڑا کے مطابق دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کے مو¿قف تعصب کی وجہ سے تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ ٹیپو پر بے جا الزام لگاتے ہیں کہ اس نے کورگ میں ہزاروں ہندوﺅں کو قتل کرایا۔ ہندوﺅں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔مورخ محب الحسن 1950ءمیں لکھی گئی اپنی کتاب” ہسٹری آف ٹیپو سلطان“ میں ان الزامات کی تردید کی۔بلکہ ٹیپو کی فوج میں ہندو اکثریت میں تھے۔اس نے کئی مندر تعمیر کرائے۔میسور میں ہندو تہوار دسہرا عظیم الشان انداز میں منایا جاتا۔ مندروں کو شاہی خزانے سے بڑی رقوم عطیہ کیں۔ بار بار حکومت کی مخالفت کی وجہ سے لوگوں کو سزائیں ضرور دیں۔ یہ سب باتیںانگریز نے پھیلائیں۔ مورخ ولیم رمپل نے بھی لکھا ہے کہ ٹیپو نے ہندوﺅں کے مندروں کی سرپرستی کی۔ رمپل لکھتا ہے اس دور میں مذہب کا سیاست میں کرادار ایسا نہیں ،جیسا کہ آج کے دور میں ہے۔اس دور میں مرہٹوں کی فوج میں مسلمان، ٹیپو کی فوج میں اکثریت ہندوﺅں کی تھی۔ ٹیپو کے زیادہ تر قریبی مشیر ہندوتھے۔ اس کے دربار میں ایک برہمن نجومی بھی ہوتا تھا۔پروفیسر رام پنیانی اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ٹیپو کی ایک متوازن تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیپونے سب سے پہلے پیش بنی کر لی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ٹیپو نے اس کے خلاف مزاحمت کے بانیوں میں سے ہے۔2017ءمیں کرناٹک اسمبلی میں صدر مملکت بھارت، رام ناتھ کوند نے ٹیپو کی تعریف کی۔ ممبئی کی ایک سڑک ٹیپو کے نام کرنے کی میونسپل کونسل نے منظوری دی۔ہٹلر صفت مودی نے 2018ءمیں ایک اسکالرز کی کمیٹی تشکیل دی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ہندوستان کے ابتدائی باشندے ہندو ہیں ۔ جبکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ آریا کے ہندوستان آنے سے پہلے اس کے اصل باشندے دراوڑ ہیں ۔ اب متعصب مودی مسلم دور کے تمام نام تبدیل کر کے مسلمانوں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ابتدا کی ہے۔ٹیپو سلطان کی تلوار جو محل کے نجی کوارٹر سے ملی جسے تمام ہتھیاروں میں سے زیادہ عظیم ا لشان کہا جاتا ہے۔ یہ تلوارجو 40 لاکھ پاﺅنڈ میں نیلام ہوئی۔یہ بھی کہا گیا کہ تلوار کا تخمینہ اس سے سات گناہ زیادہ ہے۔ ٹیپو نے آٹھارویں صدی میں کئی جنگوں میں فتح حاصل کی۔ مرہٹوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔دشمنوں نے مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے 1799ءمیں جب ٹیپو انگریزوں سے جنگ کی تیاری کر رہا تھا تو عین اس وقت نماز جمعہ پڑھ کر مساجد سے نکلنے والے سادھا مسلمانوں کے سامنے منادی کی گئی۔کہ اے مسلمانوں ! سنو، میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے۔ جبکہ ٹیپوسلطان کی ذاتی لائبر یری میں صوفی ازم پر115 کتابیں نکلی تھیں۔ یہ انگریز کا پھیلایا ہوا وہ بے ہودہ پروپیگنڈہ تھا۔چناچہ عام مسلمان ثواب کی خاطر ٹیپو سے لٹرنے پہنچ گئے۔کہیں یہ بھی اعلان ہوا کہ ٹیپو شیعہ ہو گیا۔ عرب میں بھی عثمانی ترک اور انگریز جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے انگریز دشمن ”شیخ عبدالوہاب“ کو بدنام کرنے کےلئے وہابی کا پروپیگنڈا گھڑا کیا تھا۔ یہی حربہ ہندوستان میں مسلم سپاہیوں کو عثمانی ترکوں سے لڑنے کی لیے انگریزوں نے استعمال کیا۔ علمائے سو سے فتویٰ لیا گیا کہ ترکوں کو مقامات مقدسہ کا نظم ونسق کا استحاق نہیں، یہ شریف مکہ کو ہے۔ عبرت کا مقام ہے کہ جب برطانوی لشکر القدس میں داخل ہوا تو ہندوستان کے مسلم سپاہی اس میں پیش پیش تھے۔ ٹیپوسلطان وہ ہے جس نے سلطنت عثمانیہ کو لکھا کہ فرات سے نجف تک نہر کھودویں، اس کا خرچ ریاست میسور دے گی۔ تاریخ اپنے آپ کو دھرا رہی ہے آج القدس کی آزادی اور فلسطین اپنا وطن آزاد کرنے کے لیے فلسطینی لڑ رہے ہیں اور58 ملکوں کے مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ ٹیپوسلطان آج بھی زندہ ہے۔ اس کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ” ٹیپو بنا دین محمد شہید شد“۔ ٹیپو سلطان کی سلطنت میسور کے خزاے کے سکوں کے نام، سب سے قیمتی سکہ سرور دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم کے نام احمدی تھا، دوسرا سکہ صدیقی، تیسرا فاروقی، چوتھا عثمانی اور پانچوں حیدری کے نام کا تھا۔علمائے سونے عالمی ہیرو اور جنگجو ٹیپوسلطان کے خلاف نئے نئے فتوے جاری کیے۔ اے کاش کہ مسلمان تاریخ دان یہ لکھنے کے لیے قلم اُٹھائیں کہ ”ٹیپو بنام دین محمد شہید شد“۔