چند روز قبل پاکستان ادارہ شمارےات نے کونسل آف کامن انٹرسٹ کی جانب سے گزشتہ سال منظور کئے گئے 2023ءکے آبادی اور ہاﺅسنگ کے ساتوےں سےنسز (Census) تفصےلی اعدادو شمار جاری کئے گئے ۔2017ءکی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 207.68ملےن تھی جو 2023ءمےں بڑھ کر 241.49ملےن ہو گئی ےعنی اوسطاً 2.55فےصد سالانہ اضافہ ۔آبادی مےں اضافے کی اگر ےہی رفتار جاری رہی تو 2050ءتک ملک کی آبادی دوگنا ہو جائے گی ےعنی لگ بھگ 50کروڑ نفوس ،وزےر منصوبہ بندی حسن اقبال کے بقول آبادی مےں اس قدر انتہائی اضافے کی شرح صرف دنےا کے 30ممالک مےں ہے جن مےں بےشتر کا تعلق افرےقہ سے ہے ۔اعدادو شمار کے مطابق مردوں اور عورتوں کے تناسب مےں بھی مزےد بگاڑ آےا ہے ،ےعنی اس وقت مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زائد ہے ۔ان اعدادوشمار کے مطابق 5لاکھ نفوس سے زائد شہروں کی تعداد 14تھی جبکہ چھ سال بعد 5لاکھ سے زائد آبادی کے شہروں کی تعداد 22ہو گئی ہے ۔پاکستان مےں 5سال سے 16سال کی عمر کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہےں ۔1998ءکی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے چودہ کروڑ تھی جو 25سال بعد 24کروڑ سے زائد ہو چکی ہے ۔طبی اور سماجی ماہرےن کا کہنا ہے کہ پاکستان مےں آبادی کا بم پھٹنے والا ہے ،اسے اگر فی الفور کنٹرول نہ کےا گےا تو بہت بڑی تباہی ہو گی ۔معزز قارئےن وطن عزےز خداداد پاکستان مےں آبادی مےں خطرناک اضافہ کے راستہ کو پسند کر کے ہم نے اپنے کو پرےشانےوں کی لا محدود دلدل مےں دھکےل دےا ہے ۔ےہ پرےشانےاں دن بدن خودرو بےل کی طرح آگ اور پھل پھول رہی ہےں ۔کوئی بھوک کے ہاتھوں شکستہ و بے جان ہے تو کوئی مالی تنگی سے دلبرداشتہ ،کوئی چھت کی فکر مےں ہے تو کوئی مردم گزےدہ مصائب سے نجات کا آسان اور ارزاں راستہ موت کی پناہ مےں ڈھونڈرہا ہے کےونکہ کٹھن حالات انسانوں سے قوت عمل چھےن لےتے ہےں اور ہر سو چھائے ماےوسی کے بادلوں مےں بد قسمت افراد موت کو گلے لگانے مےں ہی عافےت سمجھتے ہےں ۔ ذہنی کرب ،نفسےاتی ہےجان ،انتہا پسندی ،دہشت گردی جےسی بےمارےوں کا اےک بڑا سبب شرح آبادی مےں روز افزوں اور بے لگام اضافہ بھی ہے ۔ےہ مجبورےاں ہی ہوتی ہےں جو انسان کو ناگفتنی حرکات و اعمال پر مجبور کرتی ہےں ۔افراط زر کی شرح سے بھی کئی گنا آبادی کے تےزی سے بڑھنے سے خوشحالی بھی بد قسمت انسانوں سے اسی تےز رفتاری کے ساتھ دور ،دور اور بہت دور بھاگ رہی ہے ۔آبادی مےں خطرناک شرح سے اضافہ غرےب ،محروم اور مظلوم انسانوں کی تعداد مےں بھی اضافہ کا سبب ہے ۔ےہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کے باعث اخلاقی ،معاشی اور سماجی بحرانوں کے اندھے طوفان نے ہمےں چار سو گھےر لےا ہے اور دنےا مسائل کا گھر اور انسانی زندگی مسائل کا شکار ہو گئی ہے ۔ماضی مےں کثرت اولاد فوبےا کا اکثرےت شکار تھی لےکن آج کے دور مےں بچے امےر نہےں غرےب ہی پےدا کرتے ہےں ۔امراءکو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ بچے زےادہ پےدا ہوں گے تو ان کے اثاثے بندر بانٹ سے کم ہو جائےں گے جبکہ غرےب اپنے بچوں کو ہی اپنا اثاثہ سمجھتا ہے اور اس اثاثے مےں اضافہ سے اس کی آمدنی مےں اضافہ کی حکمت عملی پنہاں ہوتی ہے ۔اسی طرح آج دنےا کے امےر ترےن ملک تو آبادی پر کنٹرول کر رہے ہےں لےکن تےسری دنےا کے غرےب ممالک آبادی مےں تےز رفتاری سے اضافہ پر ہی کمر بستہ ہےں۔غرےب والدےن کو خط غربت سے نےچے جانےوالی اکانومی کو مستحکم کرنے کےلئے لےبر فورس کی ضرورت ہوتی ہے ۔غرےب کا بال ابھی صحےح بال و پر بھی نہےں نکالتا کہ والدےن اسے کسی جگہ چھوٹے کی حےثےت سے بھرتی کروا دےتے ہےں ۔ والدےن کے معاشی حالات اےسے ہوتے ہےں کہ بچوں سے حاصل ہونےوالی ہزار دو ہزار روپے کی کشش انہےں اپنے ہی لخت جگروں کو مشکل کاموں پر لگائے رکھنے پر اکساتی رہتی ہے ۔ معزز قارئےن ذرا غور کرےں وہ کےسے سنگےن حالات ہوں گے جن کے زےر اثر والدےن اپنے معصوم بچوں کو چند ہزار کے عوض دےنے پر مجبور ہوتے ہےں اور بعض گردش حالات کے ستم رسےدہ اپنے جسمانی اعضاء، گردے تک فروخت کرنے پر رضا مند ہو جاتے ہےں ۔ماضی مےں ےورپی ممالک کو لےبر فورس کی کمی پورا کرنے کےلئے تےسری دنےا کے غرےب ممالک پر ہی انحصار کرنا پڑتا تھا لےکن 9/11کے بعد حالات بدل گئے اب ےہ ممالک غےر اسلامی ممالک پر ہی بھروسہ کر رہے ہےں ۔ستم کی بات کہ اس وقت 50لاکھ سے زائد بچے پاکستان مےں بھےک مانگنے پر مجبور ہےں ۔غربت اور مجبوری اور لاقانونےت کمسن بچوں سے بھےک منگوانے کےلئے انہےں سڑکوں پر لے آتی ہے ۔وطن عزےز کو اس وقت مختلف قسم کے سےلابی رےلوں کا سامنا ہے جن مےں مہنگائی کا سےلاب ،بھےک منگوں کا سےلاب ، غربت کا سےلاب ،بےروزگاری کا سےلاب ،کس کس کا ذکر کےا جائے فہرست طوےل ہے لےکن ان تمام سےلابوں کی بڑی وجہ آبادی کے سےلاب کی طغےانی ہی ہے ۔ہم حکومت کو توتمام بےمارےوں ،غربت ، بےروزگاری ،مہنگائی ،گےس اور بجلی کی ناےابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہےں لےکن کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش ہی نہےں کی کہ ہم سب ہی ان تمام بحرانوں کے کسی حد تک خود ذمہ دار ہےں ۔ہم نے آبادی مےں ہوشربا اضافہ مےں ہی ترقی کو اپنا مطمع نظر ٹھہرا لےا ہے ۔ہم اپنی لغزشوں اور ذاتی حماقتوں کے ساتھ جب سنگےن مسائل کا شکار ہوتے ہےں تو پھر ناانصافی ،ظلم اور محرومی کا نام لےکر ماتم شروع کر دےتے ہےں ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ آبادی کے بڑھنے سے معےشت پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہےں ۔آبادی مےں اضافہ سے اشےاءو خوراک کی رسد پر برا اثر پڑتا ہے ،بچتےں زر مبادلہ اور انسانی ذرائع کی ترقی متاثر ہوتی ہے ۔سرماےہ کاری مےں کمی اور ادائےگےوں کے توازن پر دباﺅ پڑتا ہے ۔زر مبادلہ مےں قلت محسوس ہونے لگتی ہے۔وسائل کی کمی سے بد حالی ،بیروزگاری ، ناخواندگی ،ماحولےاتی آلودگی اور بےمارےاں ہی مقدر بنتی ہےں ۔کوئی بھی ملک ترقی صرف اسی صورت کر سکتا ہے جب اس کے وسائل کے بڑھنے کی رفتار آبادی مےں اضافہ کی رفتار سے زےادہ ہو ۔مسلم دنےا مےں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے دو مختلف نقطہ نظر ہےں ۔اےک طبقہ فکر کے مطابق بچوں کی پےدائش کے قدرتی عمل کو روکنا جرم ہے اور ےہ بہبود آبادی کو خدائی امور اور اس کے فےصلوں مےں مداخلت قرار دےتے ہےں اور مسائل غربت کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ منسلک کر دےتے ہےں ۔دوسرے مکتبہ فکر کا کہنا ہے بہبود آبادی جائز ہے ۔عوام کی اکثرےت نے اسے تسلےم کر لےا ہے اور اس کے مختلف دلائل کو کوئی اہمےت نہےں دےتی اور چھوٹے کنبے کی افادےت سمجھتی ہے ۔اےران ،ملائشےا اور بنگلہ دےش مےں عوام نے عوامی طور پر اسی فکر کو قبول کر کے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کو نہ صرف روک لےا ہے بلکہ اس مےں کمی بھی واقع ہوئی ہے ۔دنےا مےں چےن اےسا ملک تھا جس کی آبادی دنےا مےں سب سے زےادہ تھی تا ہم انہوں نے اس پر بڑی حد تک قابو پا لےا ہے جس کے باعث ان کی اقتصادےات دنےا کےلئے مستقبل مےں کوئی خطرہ نہےں رہا ۔وطن عزےز مےں 64ملےن لوگوں کو پےنے کا صاف پانی مےسر نہےں ۔88ملےن لوگوں کو صحت اور صفائی کی سہولت مےسر نہےں ۔66ملےن لوگ اےک گھر کے کمرے مےں زندگی گزارنے پر مجبور ہےں ۔ ہمارے پاس دنےا کے 70فےصد قدرتی وسائل ہےں اس کے باوجود ہمارا ترقی نہ کر سکنا ہماری آبادی کی شرح مےں تےزی سے اضافہ ہی ہے ۔جن ملکوں مےں تعلےم کی شرح کم اور پسماندگی زےادہ ہے وہاں پر آبادی تےزی کے ساتھ بڑھتی ہے ۔ہمارے ہاں فےملی پلاننگ کا محکمہ بھی صحےح نہج پر پلاننگ کرنے سے محروم رہا کہ عوام کی طبعتےں ادھر نہےں آئےں ۔وطن عزےز کے باسےوں نے آبادی مےں اضافہ کو ہی چار چاند لگائے ۔محکمہ بہبود آبادی اپنے اہداف حاصل کرنے مےں ناکام رہا ان کےلئے شاےد اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو ےہ احساں ہوتا ۔متوقع نتائج سامنے نہ آنے کی وجہ آبادی کے کنٹرول کرنے کے سازوسامان تک غرےب عوام کی رسئی نہ ہونا ہے ۔اس کےلئے زےادہ بجٹ الاٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلہ مےں منعقدہ سمےنارز اور کانفرنسوں کی ناکامی کا اصل سبب ہی کام کی طرف توجہ نہ دےنا ہے بلکہ صرف نشستند ،گفتند اور برخاستند والا معاملہ ہی ہے ۔اگر ہم نے وطن عزےز مےں شرح آبادی مےں اضاہ پر قابو پانے کےلئے موثر پالےسےاں نافذ نہ کےں تو نہ صرف معاشی زندگی کی رفتار سست پڑ جائے گی بلکہ معےار زندگی بھی مزےد انحطاط کا شکار ہو جائے گا ۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ،لمحہ فکرےہ
