ایک طرف کسے علم نہیں کہ 6ماہ پہلے معرکہ حق کے دوران پاکستان کے ہاتھوں بھارتی فوج کوبدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا اعتراف ٹرمپ سے لیکر تمام عالمی میڈیا نے کیا تھا۔دوسری جانب یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی میڈیا ہمیشہ سے پاکستان کے داخلی معاملات کو مسخ شدہ زاویے سے پیش کرتا آیا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں سابق وزیراعظم عمران خان کی بہنوں **نورین نیازی اور علیمہ خان** کے انٹرویوزجس میں انہوں پاکستان کے خلاف زہر اگلا،ان کوجس طرح بھارتی چینلز نے اپنے پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ایک منظم ایجنڈے کی جانب بھی واضح اشارہ کرتا ہے۔ سفارتی ماہرین کے مطابق بھارت میں موجود میڈیا ہاؤسز پہلے سے طے شدہ فریم میں مواد تلاش کرتے ہیں، اور جیسے ہی انہیں کوئی ایسا شخص یا بیان مل جائے جو پاکستان کے اندرونی حالات کو منفی انداز میں پیش کر سکے، اسے فوری طور پر بڑھا چڑھا کر عالمی سطح پر نشر کیا جاتا ہے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نورین نیازی اور علیمہ خان نے حالیہ دنوں میں بھارت کے کئی نمایاں چینلز—جن میں انڈیا ٹوڈے، ری پبلک بھارت اور زی نیوز شامل ہیں—کو انٹرویوز دیے۔** ان انٹرویوز میں پاکستان کے سیاسی ماحول، عدالتی کارروائیوں اور عمران خان کی صحت کے بارے میں کئی ایسے بیانات سامنے آئے جو نہ صرف یکطرفہ تھے بلکہ بھارتی میڈیا کے تیار کردہ بیانیے سے مکمل مطابقت رکھتے تھے۔ بھارت میں بیٹھ کر، بھارتی اسکرینز پر، پاکستان کے اداروں کے خلاف گفتگو کرنا خود اپنے اندر کئی سوالات اٹھاتا ہے—خصوصاً اس وقت جب بھارت کی اپنی ساکھ انسانی حقوق، میڈیا فریڈم اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر بری طرح تنقید کا شکار ہے۔**یہ امر خصوصی تنقید کا متقاضی ہے کہ بھارت نے نورین نیازی کے بیانات کو ”حقائق” کے طور پر پیش کیا، جیسے وہ کسی غیر جانب دار مبصر کی گواہی ہوں۔** حالانکہ ہر ذمہ دار مبصر جانتا ہے کہ بھارت کبھی بھی پاکستان کے داخلی معاملات پر غیر جانبدار رپورٹنگ نہیں کرتا۔ اس کے پس منظر میں ہمیشہ پاکستان کو کمزور، غیر مستحکم اور بے بس دکھانے کا مقصود ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں بھارتی میڈیا نے ان انٹرویوز کو عمران خان کے حوالے سے اپنے دیرینہ پروپیگنڈے کا حصہ بنا کر چلایا—جس میں ریاستی اداروں پر تنقید، پاکستان میں مبینہ سیاسی جبر، اور مختلف سازشی نظریات کو عالمی سطح پر پھیلانا شامل ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی میڈیا نے تو حد ہی کر دی جب چند چینلز نے **عمران خان کی وفات** سے متعلق جھوٹی خبریں بھی نشر کر دیں۔ ان میں ری پبلک بھارت اور زی نیوز سمیت کئی ویب پورٹلز شامل تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کی غیر مصدقہ افواہوں کو بغیر کسی تصدیق کے ”بریکنگ نیوز” کے طور پر پیش کیا۔ مبصرین کے مطابق اس طرح کی فیک نیوز نہ صرف غیر ذمہ دارانہ صحافت کی مثال ہے بلکہ اس سے بھارتی میڈیا کا پاکستان مخالف جنون بھی آشکار ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب پاکستان کے حکام نے ان جھوٹی خبروں کی سختی سے تردید کی تو بھارتی چینلز نے خاموشی اختیار کر لی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اسی تناظر میں یہ سوال شدت اختیار کرتا ہے کہ نورین نیازی نے اپنی بات رکھنے کے لیے بھارت جیسے متعصب اور پاکستان دشمن میڈیا پلیٹ فارمز کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ ایک ایسا عمل ہے جو غیر ارادی طور پر بھی بھارتی پروپیگنڈے کو تقویت دیتا ہے۔ سفارتی ماہرین کے مطابق پاکستان کے سیاسی فیصلے، عدالتی معاملات یا انفرادی کیسز کو بھارتی میڈیا پر اٹھانا ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنے گھر کی کمزوری دشمن کی عدالت میں بیان کریں۔ بھارتی میڈیا کو ایسے بیانات فراہم کرنا دراصل اسی کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے جو ہر عالمی فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کوشاں ہے۔مزید برآں، بھارت کے اندر خود جمہوریت کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہاں میڈیا پر حکومتی دباؤ، صحافیوں کے خلاف کیسز، اور اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملے عالمی رپورٹس میں مسلسل سامنے آتے ہیں۔ لیکن بھارتی چینلز ان مسائل سے نظریں چرا کر پاکستان کے حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نورین نیازی کے انٹرویوز کو غیر معمولی کوریج ملی، کیونکہ انہیں بھارت کے پروپیگنڈا بیانیے کے عین مطابق پایا گیا۔یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ بھارتی میڈیا نے جان بوجھ کر انٹرویوز کے وہ حصے نمایاں کیے جن میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف تند و تیز جذبات کا اظہار کیا گیا۔ اس تکنیک کو میڈیا اسٹڈیز میں ”سیلیکٹو ایمپلیفکیشن” کہا جاتا ہے—یعنی مخصوص زاویے کو کئی گنا بڑھا کر پیش کرنا، جبکہ باقی حقائق کو پس منظر میں دھکیل دینا۔ بھارت نے بھی یہی کیا: نہ پاکستان کے نقط نظر کی نمائندگی کی، نہ عدالتوں کی پوزیشن پر روشنی ڈالی، نہ عمران خان کے سیاسی فیصلوں کے تنقیدی پہلو دکھائے؛ صرف ایک رخ کو بڑھا چڑھا کر پروپیگنڈا بنایا گیا۔اس کے ذریعے بھارت نے دو اہداف کو بیک وقت حاصل کرنے کی کوشش کی:
1 پاکستان کو داخلی طور پر بکھرا ہوا اور کمزور دکھانا۔
2 عمران خان کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کو اس بیانیے کے قریب لانا جو بھارت کئی برسوں سے فروغ دے رہا ہے۔یہ بات بھی قابلِ مطالعہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات کو بھارت کیسے عالمی سطح پر اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کو پاکستان سے متعلق مثبت خبریں کبھی پسند نہیں آتیں۔ اس کے برعکس، جیسے ہی کوئی منفی خبر یا اختلاف سامنے آتا ہے، بھارتی چینلز اسے مسلسل کئی دن تک چلاتے ہیں، اسے بین الاقوامی جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اسے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سفارتی بیانیے کا حصہ بنا دیتے ہیں۔مبصرین کے مطابق نورین نیازی کے انٹرویوز نہ تو پاکستان کے لیے فائدہ مند تھے اور نہ ہی عمران خان کے لیے۔ اس کے برعکس، ان انٹرویوز نے بھارتی میڈیا کو مزید مواد فراہم کیا، جسے انہوں نے پاکستان مخالف مہم کے لیے فوراً استعمال کیا۔ بطور ایک ذمہ دار ریاست، پاکستان کو اس رجحان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور واضح پالیسی بنانی چاہیے کہ ملکی سیاسی اختلافات کو دشمن ملک کے پلیٹ فارمز پر زیر بحث لانا کس حد تک نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔آخر میں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ دنیا تیزی سے ”میڈیا وار” کے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بیانیہ ہی سب کچھ ہے۔ ایسے میں ملکی شخصیات کا دشمن ملک کے میڈیا پر جا کر یکطرفہ گفتگو کرنا صرف ایک بیان نہیں رہتا؛ یہ پاکستان کے تزویراتی مفادات پر براہ راست اثر ڈالتا ہے۔ بھارت کی اس منظم پروپیگنڈا یلغار کے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی شخصیات اور عوام دونوں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، اور ایسے ذرائع سے دور رہیں جو ملک کے خلاف منفی بیانیہ تشکیل دینے میں بدنام ہیں۔
پاک مخالف انٹرویوز اور بھارتی زہریلا پروپیگنڈا

