Site icon Daily Pakistan

پاک ملائشیا تعلقات،مستقبل کی بنیاد

بین الاقوامی تعلقات اکثر رسمی بیانات، مشترکہ تصاویر اور مختصر اعلامیوں تک محدود رہ جاتے ہیں، جن میں معنویت کم اور علامتی حیثیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو محض سفارتی مصلحت نہیں بلکہ مشترکہ تاریخ، ثقافتی ہم آہنگی، مذہبی قربت، نظریاتی یکسانیت اور عوامی جذبات کی گہری جڑوں پر استوار ہوتے ہیں۔ پاکستان اور ملائیشیا کا باہمی تعلق انہی چند گنے چنے رشتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ صرف برقرار نہیں رہے بلکہ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے اب پائیدار تزویراتی شراکت داری کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کا حالیہ دورہ ملائیشیا اسی ارتقا کا تسلسل ہے۔ یہ دورہ نہ صرف دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو نئی معنویت بخشتا ہے بلکہ کئی اہم شعبوں میں عملی تعاون کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ اس دورے میں چھ کلیدی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے، جو کہ حلال انڈسٹری، ڈیجیٹل معیشت، اعلی تعلیم، انسداد بدعنوانی، سفارتکاروں کی تربیت اور سیاحت جیسے متنوع مگر اہم میدانوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان معاہدوں کی نوعیت اور دائرہ کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک روایتی بیانات سے آگے نکل کر حقیقی اقتصادی اور ادارہ جاتی تعاون کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت جن چیلنجز سے دوچار ہے، ان میں سرفہرست معاشی بحران اور عالمی سطح پر مثر موجودگی کا فقدان ہے۔ ایسے میں خارجہ پالیسی کو معاشی سفارت کاری سے ہم آہنگ کرنا محض ایک دانشمندانہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک ناگزیر قومی ضرورت بن چکا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا، بالخصوص ملائیشیا، نہ صرف ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے بلکہ عالمی اقتصادی نظام میں اپنی مثر موجودگی بھی رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ مضبوط تعلقات پاکستان کے لیے محض سفارتی کامیابی نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ملائیشیا نے پاکستانی حلال گوشت کی برآمدات کے کوٹے میں 200 ملین ڈالر تک اضافے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو پاکستانی برآمدکنندگان کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ چاول کی برآمدات پر اطمینان کا اظہار بھی دونوں ممالک کی تجارتی قربت کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم ان مواقع سے حقیقی فائدہ صرف اسی صورت میں اٹھایا جا سکتا ہے جب برآمدات کے شعبے میں معیار، سرٹیفکیشن اور عالمی تقاضوں کو مسلسل بہتر بنایا جائے۔ پاکستان کی حلال انڈسٹری کے لیے یہ موقع نہ صرف آمدن کا باعث بن سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی پیش رفت کی گئی ہے، جہاں جامعات کے مابین طلبہ و اساتذہ کے تبادلے، مشترکہ تحقیقی منصوبے اور ادارہ جاتی روابط پر بات چیت ہوئی۔ ملائیشیا کی جامعات بین الاقوامی درجہ بندی میں بہتر مقام رکھتی ہیں، اور پاکستانی طلبہ کے لیے یہ نہایت موزوں تعلیمی مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ اس قسم کا تعاون علمی روابط کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر روابط کی مضبوطی کا بھی ذریعہ بنتا ہے، جو کسی بھی دوطرفہ تعلق کی پائیداری میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
دورے کے دوران عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا، بالخصوص فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مقف کو سراہا گیا۔ اس سے دونوں ممالک کے عالمی معاملات میں یکساں نقطہ نظر اور بین الاقوامی فورمز پر باہمی تعاون کے امکان کو تقویت ملتی ہے۔ آسیان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں وسعت بھی اس دورے کا اہم پہلو تھی۔ وزیراعظم نے آسیان کی صدارت سنبھالنے پر ملائیشیا کو مبارکباد دی اور اس بلاک کے ساتھ پاکستان کے مکمل ڈائیلاگ پارٹنر بننے کے لیے ملائیشیا کی حمایت پر اظہار تشکر کیا۔ یہ پیش رفت علاقائی سیاست اور معیشت میں پاکستان کے کردار کو مستحکم کر سکتی ہے، بشرطیکہ اس سمت میں تسلسل اور سنجیدگی برقرار رکھی جائے۔
تاہم ان تمام مثبت اعلانات اور معاہدات کے باوجود اصل امتحان ان پر عمل درآمد کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ماضی میں بھی کئی باہمی معاہدے کیے، لیکن فالو اپ میکانزم کی عدم موجودگی اور سیاسی عدم استحکام نے ان میں سے بیشتر کو محض فائلوں کا حصہ بنا دیا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے ادارے، کاروباری طبقہ اور پالیسی ساز مل کر ان معاہدات کو زمینی سطح پر عملی جامہ پہنائیں، اور ترجیحی بنیادوں پر ان کے اہداف کا تعین کریں۔پاکستان کو ایسے شراکت داروں کی اشد ضرورت ہے جو محض خیر سگالی کے مظاہر تک محدود نہ ہوں بلکہ حقیقی اقتصادی، تعلیمی اور تیکنیکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ ملائیشیا نہ صرف مستحکم مسلم ریاست ہے بلکہ ایسا ترقی یافتہ ماڈل ہے جس سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ یہ تعلق محض روایتی دوستی کے دائرے میں محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے بامقصد اور ہمہ جہت شراکت داری کی شکل دی جانی چاہیے، جس کی بنیاد پر پاکستان اپنی داخلی ترقی اور خارجی وقار کو مضبوط بنا سکے۔

 

Exit mobile version