جدید مواصلاتی ترقی کے اس دور میں جہاں صرف آپ کا موبائل فون ہی پوری دنیا سے رابطوں خبروں معلومات اور دیگر علمی ادبی ثقافتی تاریخی سیاسی سماجی معلومات کیلئے کافی ہوتا ہے اور ترقی کرتے ملک میں جہاں اب دور دراز کے دیہات قصبات اور پسماندہ علاقوں میں بھی سکول کالج ڈسپنسریاں پولیس چوکیاں اور تحصیلو ں میں کالج ہسپتال اور تقریبا تمام محکموں کے دفاتر اور ضلع سطح پر یونیور سٹیاں پک اینڈ ڈراپ سہولتوں کیساتھ موجود ہیں علاوہ دیگر سہولیات جن میں پکی سڑکیں بجلی گیس واٹرسپلائی ریسٹ ہاسز ہوسٹلز اور بہت کچھ موجود ہے اس دور میں آنکھ کھولنے اور جوان ہونے والی نسل کو شاید یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں لوگوں کے پاس ان سہولتوں کا کبھی خواب خیال بھی نہ تھا موٹر کاریں موٹر سائیکل بھی خال خال ہوا کرتی تھی اس دور میں بائیسکل بہت بڑی سفری سہولت تھی تانگے گدھے گاڑیاں عام ذرائع آمدورفت ہوا کرتے تھے دوسرے شہروں میں ٹیلی فون کال کیلئے بھی کسی بڑے شہر کے سرکاری پبلک کال آفس سے رجوع کرنا پڑتا تھا اکثر دیہی علاقوں میں سکول عمارتوں سے بے نیاز کھلی جگہو ں میدانوں میں موسمی اثرات کا مقابلہ کرتے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا طلبا کا مقدر تھی اور یہی حال طبی سہولتوں کا تھا ایمبو لینس لیبارٹیاں اور دیگر سہولتیں تو سرے سے نا پائید تھیں آ پ سوچ رہے ہو نگے کہ پھر اس دور میں لوگ زندہ کیسے رہتے ہو نگے تعلیم کیسے حاصل کرتے اور ترقی کی منازل کیسے طے کرتے تھے تو عرض ہے کہ اس دور میں اللہ تعالیٰ انسانوں پر زیادہ مہربان تھے اور ایسی ایسی روحیں اس دنیاکو عطا فرماتے تھے کے جو اپنی خداداد صلاحیتوں اپنی محنت اور حوصلوں سے کارہائے نمایا ں انجام دے کر آج کی ترقی اور خوشخالی کا باعث بنے ایسی ہی روحوں میں ایک روح ممتاز قانون دان بلکہ فوجداری قانون کے ماہر چوہدری محمد عارف چٹھہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ بھی تھے جنہوں نے تحصیل وزیرآباد کے ایک دور دراز گاں برج منچر میں ایک زمیندار گھرانے میں ایک کھولی اسی گاں کے سکول سے تعلیم حاصل کرتے ہوے علی پور چٹھہ کے سکول سے تعلیم مکمل کرکے زمیندار گجرات اور پھر لاہور سے قانون کی دگری حاصل کرنے کے دوران ایک زرعی ادارے میں کچھ عرصہ ملازمت کرتے رہے مگر ان کارجحان شخصی آزادیوں کی طرف تھا لہذاوکالت کے میدان میں جوہر دکھانے کیلئے وزیرآباد میں لا پریکٹس کرنے لگے اور بہت جلد ایک کامیاب وکیل کی حیثیت سے س قدر مشہور ہوئے کے دوردور سے لوگ اپنے مقدمات کیلئے ان سے رجوع کرتے وکالت کیساتھ ساتھ وہ وکلا سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیتے اور یوں بار ایسوسی ایشن کے صدر اور دیگر عہدوں ہر منتخب ہوتے رہے اور اسی دوران شہید ذولفقار علی بھٹو کے سیاسی نظریات سے متاثر ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بعدازاں پارٹی سے اختلافات کی بنا پر تحصیل وزیرآباد کے ممتاز اور ہر دلعزیز سیاست دان بلکہ اگر یہ کہوں کہ پاکستان کہ ممتاز سیاستدان سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری حامد ناصر چٹھہ کے ساتھی بنے اور سیاست میں بھی انہیں کامیابیاں نصیب ہوئیں اور وہ نہ صرف ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چئیر مین بھی رہے انیسو چھیاسی کی بات ہے جب میں صحافت کے میدان سے قدم بڑھاتا ہوا وکالت کے سمندر میں بطور وکیل شامل ہوا میرا رجحان فوجداری سائید پر زیادہ تھا لہٰذا اپنے سینئر چوہدری علی بہادر چٹھہ اور چوہدری غضنفر علی چیمہ کے علاوہ چوہدری محمد عارف چٹھہ سے بہت متاثر تھا عارف چھٹہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ان کی یاداشت بہت تیز تھی انہیں اعلیٰ عدالتوں کے سینکڑوں فیصلے اور قانونی نظیریں زبانی یاد ہوتی تھیں وہ جو فیصلہ جات پڑھتے ان کے ذہن میں وہ نقش ہوجاتے اورپھر جب وہ عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے دوران فی البدیہ ان قانونی فیصلوں اور نظیروں کو حسب ضرورت بیان کرتے تو نہ صرف عدالتیں بلکہ ان کے ہمعصر وکلا صاحبان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے اور یہی سے وہ اپنے مدمقابل پر برتری حاصل کرتے مقدمات جیتتے آگے ہی آگے بڑھتے جاتے اور پھر تحصیل سطح پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھنے کے بعد وہ گوجرانوالہ اور لاہور میں وکالت کرنے لگے یہ انکا عروج کادور تھا کے ان کے ایک صاحبزادے شکار کھیلتے ہوے زخمی ہو گے عارف چٹھہ کے ایک بیٹے فوج میں بریگیڈیرڈاکٹرتھے انہوں نے بھی اپنے زخمی بائی کے علاج کی بھر پور کوشش کی مگر دماغی چوٹ کچھ اس قسم کی تھی کہ وہ دوبار صحت مند نہ ہو سکے اور یوں تقریباً ڈیڑھ سال قبل وفات پاگئے عارف چٹھہ کو اپنے جوانسار بیٹے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کے وہ عارف چٹھہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔(آمین)