یہ کھلا خط آپ سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کے موجودہ سیاسی نمونے پر نظر ثانی کرنے اور نوجوان نسل کی امنگوں سے ہم آہنگ ہونے والے ایک نئے انداز کو اپنانے پر زور دینے کے لیے لکھ رہا ہوں۔مخلص جیالوں کے پرخلوص تحفظات اور اصرار خصوصا محترم افضل انقلابی محترم ظفر منہاس، عمار کاظمی اور پنجاب سے عمار بھٹی، بلوچستان سے بشیر نیچاری، کے پی کے اور پیپلز پروفیسرز فورم کے اعلی تعلیم یافتہ اور قابل پیشہ ور افراد سے ملاقات نہیں کرتے کیونکہ پیپلز پروفیسرز فورم تمام شعبوں سے تین سو سے زائد پی ایچ ڈیز پر مشتمل ہے اور تمام شعبہ جات میں نمائندگی کرتے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو پیپلز پروفیسرز فورم کے وفد سے تمام صوبوں کے تمام اضلاع کے مخلص کارکنان سے ملاقات کریں۔ جیالوں کی اکثریت سمجھتی ہے ،پاکستان کی نوجوان نسل خاندانی سیاست اور موروثی پیشوں سے مایوس ہے جو ہمارے ملک میں بہت عرصے سے رائج ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ ان مسلط لیڈروں سے زیادہ باصلاحیت اور عقلمند ہیں جنہیں میرٹ کی بجائے خاندانی وراثت کی بنیاد پر عہدے سونپے گئے ہیں۔ یہ جذبہ گزشتہ عام انتخابات میں ظاہر ہوا جب بہت سے نوجوان ووٹروں نے تبدیلی کے مسیحا کے طور پر عمران خان کی طرف رجوع کیا۔ تاہم، نوجوان نسل کا یہ فریب آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے کیونکہ انہیں احساس ہے کہ موجودہ انتظامیہ میں تبدیلی اور اصلاحات کے وعدے ناکام ہو گئے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ 2029کے عام انتخابات میں نوجوان ووٹروں کی طرف سے ایک خاموش تبدیلی آئے گی، جس سے پرانی سیاسی وراثتیں زوال پذیر ہوں گی اور پاکستانی سیاست میں ایک نئے دور کاآغازہوگا۔
چیئرمین بلاول، میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی پی پی کا رخ بدلیں اور اسے نوجوان نسل کی امنگوں سے ہم آہنگ کریں۔ یہ وقت ہے کہ ماضی سے الگ ہو جائیں اور ایک نئے سیاسی نمونے کو اپنائیں جو اہلیت اور قابلیت کو خاندانی رشتوں سے بالاتر رکھتا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ یہ اعلان کریں کہ آئندہ پی پی پی کے امیدواروں کا انتخاب خاندانی وراثت کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ بدعنوانی میں ملوث اور پارٹی کی شبیہ کو داغدار کرنے والے بوڑھوں سے خود کو الگ کریں۔ تبدیلی کے لیے اپنے عزم کو ظاہر کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس میں اس پالیسی کا عوامی طور پر اعلان کریں۔ یہ بہت اہم ہے کہ آپ مستقبل میں پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے متحرک اور نوجوان رہنماں کی ایک نئی ٹیم بنائیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں کا دورہ کریں، یونین کونسلوں سے لے کر تحصیلوں تک، ایسے مخلص سینئر کارکنوں اور دانشوروں کی نشاندہی کریں جو نچلی سطح پر پارٹی کو دوبارہ متحرک کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جیتنے کے لیے گیلانی ماڈل آف الیکشنز پر عمل کریں۔ قومی سطح پر پارٹی کے کردار پر غور کریں اور سندھ سے باہر اس کا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کام کریں۔ اگرچہ سندھ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہو سکتا ہے، لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ نوجوان نسل آہستہ آہستہ پارٹی سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ اس رجحان سے نمٹنے کے لیے فعال اقدامات کریں اور پنجاب میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے ملتی جلتی صورتحال کو روکنے کےلئے اقدامات کریں۔ اگلے چار سالوں میں، اپنا وقت پارٹی کارکنوں، نوجوان ووٹروں سے ملنے، اور ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی حمایت حاصل کرنے کےلئے وقف کریں۔ خود کو سیلفی مافیا اور سرمایہ کاروں سے دور رکھیں جو آپ کو مخلص ووٹرز اور دانشوروں سے دور کر رہے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ضروری ایڈجسٹمنٹ کرنے کےلئے گزشتہ انتخابات میں پرانے عہدے داروں اور سیلفی مافیا کے کردار کا جائزہ لیں۔ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس کے دل میں پی پی پی کا بہترین مفاد ہے، میں یہ تجاویز پیش کرتا ہوں تاکہ پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے نہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں پارٹی کے امکانات کو مضبوط کیا جائے۔یہ ایک نئی سمت کا وقت ہے، جو میرٹ، دیانتداری، اور پاکستانی عوام کی خدمت کے لیے حقیقی عزم سے کارفرما ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تبدیلیوں کو لاگو کرنے میں رکاوٹیں ہو سکتی ہیں، لیکن میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے اور میرے معزز ساتھیوں کے الفاظ کے اخلاص پر غور کریں۔ تبدیلی کے اس موقع کو قبول کریں، اور مل کر ہم پاکستان کےلئے ایک روشن مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔