Site icon Daily Pakistan

ڈیجیٹل دہشتگردی، شہدائے لسبیلہ اور ہانیہ کی شہادت

ففتھ جنریشن وار کیا ہے کیسے لڑی جاتی ہے اور کیسے لڑی جا رہی ہے۔ڈیجیٹل انتہا پسندی و ڈیجیٹل دہشت گردی کیسے کی جا رہی ہے، اس کو عسکری و سیاسی مقاصد کے لیے کیسے بروئے کار لایا جاتا ہے اور دنیا کے کئی ممالک بالخصوص پاکستان گزشتہ ایک دو سال سے کیسے اس کا شکار ہو رہا ہے قبل اسکے کہ اس پر قلم آرائی کی جائے پہلے اظہار عقیدت کے کچھ کلمات شہدائے لسبیلہ اور شہید اسماعیل ہانیہ کےلئے 2022 کے اگست کے بعد تو یہ ماہ اپنی تمام یاداشتوں اور شہادتوں کے ساتھ سامنے ان کھڑا ہوتا ہے۔ شہادتوں کا جو سلسلہ غزوہ بدر سے شروع ہوتا ہوا کربلا تک پہنچا کہ پہلے شہید ہونا اعزاز تھا، مگر امام حسین کی لازوال قربانی نے شہادت کو عظمت عطا کر دی۔یہ سلسلہ چلتے چلتے تحریک پاکستان کے شہدا تک پہنچا تو پھر بقائے پاکستان و استحکام پاکستان کا نیا سفر شروع ہوا۔لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ہوں، میجر طلحہ منان یا پاک فوج، سیکورٹی اداروں اور سول سوسائٹی کے شہدا سب ایک ہی منزل کے مسافر کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ کا، قول کہ لوگو جہاد کرتے کرتے شہید ہو جاو¿ کہ موت کی تلخی بہت سخت ہوتی ہے۔میجر طلحہ منان نے شہادت کا جام پیا گرچہ اپنے خاندان کو سوگوار کر گئے مگر ان کو وہ عظمت عطا کر گئے جو قیامت تک اس خاندان کے لئے اعزاز اور بروز قیامت شہید کی شفاعت کا وسیلہ۔ادھر عظیم مرد مجاہد اسماعیل ہانیہ کی شہادت نے دل کو چوٹ لگائی۔خبر پڑھ کر دل پر چوٹ لگی۔شہید ہانیہ نے شہدائے کربلا کی سنت کو زندہ کیا کہ انکے بیٹوں سمیت خاندان کے60کے لگ بھگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بھی دشمن نے کہاں چین سے بیٹھنا تھا کہ چند گھنٹوں بعد ہی شر انگیزی پر مبنی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بننا شروع ہو گئیں جن میں برادر اسلامی ملک ایران پر الزام تراشی اور فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دیکر پاکستان میں صورتحال کو خراب کرنا شامل تھا۔بدقسمتی سے ہمارے لوگ ایسی سازشوں کا اثر قبول کر کے ذہنی گمراہی کا شکار جاتے ہیں جو معاشرے میں انتشار کا باعث افراتفری اور بے چینی پھیلانے کا باعث،جس طرح زیر انسانی خون میں شامل ہو کر جسم کی مدافعتی قوت کو تباہ کر کے موت وارد کرتا ہے اسی طرح ففتھ جنریشن وار انسانی نفسیات پر حملہ آور ہو کر اسے نظریاتی موت کا شکار کرتی ہے۔ایسے شخص کی نظر میں وہی حق ہوتا ہے جسے وہ حق سمجھتا ہے۔ امریکہ اس حربہ کو کافی مدت سے استعمال کر رہا ہے ۔ اس کےلئے اس نے میٹا سے دستیاب 7 بلین سے زائد افراد کا ڈیٹا تک اس کی رسائی ممکن بنائی۔ پینٹاگون، سی آئی اے اور اس کے دیگر خفیہ ادارے انہی معلومات کی بنا پر افراد، اداروں اور ملکوں میں کامیاب آپریشنز کر رہے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میٹا سے صارفین کی معلومات اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بھاری معاوضہ پر حاصل کرتے ہیں۔دستیاب معلومات کے مطابق میٹا نے اسی بنا پر 53 بلین ڈالر کا ریونیو کمایا۔سوشل میڈیا کے ذریعے رائے عامہ کی ذہن سازی کرنا اب آسان ہو گیا اور اس کا استعمال سیاست میں بھی پھر پور طریقہ سے شروع کر دیا گیا۔جس کا کامیاب تجربہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کر کے متنازعہ کامیابی بھی حاصل کی۔اور اب بھی فیک نیوز اور پراپیگنڈا کے سہارے وہ دوسری مدت کےلئے میدان میں ہے۔پاکستان میں بھی بعض سیاسی جماعتیں اور مذہبی گروہوں نے اس حربہ کو اس کامیابی سے استعمال کیا کہ سیاسی مخالفین تو ایک طرف سیکورٹی ادارے حیران رہ گئے۔اس میں کلام نہیں کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز، جھوٹ تعصب اور نفرت سے بھرپور مواد ہمہ وقت دستیاب اور کسی سطح پر بھی اس کی روک تھام نہ کی گئی۔اب سیکورٹی اداروں کی تحریک پر حکومت نے شرانگیزی کے اس پلیٹ فارم کو قابو میں لانے کی کوشش فائروال کی صورت میں کی جسے اسرائیلی اخبار”دی یروشلم پوسٹ“آزادی اظہار پر پابندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، اس پر اسرائیل ہو یا بھارت ان کی بے چینی تو سمجھ آتی ہے کہ ملک دشمن عناصر اسی کے ذریعے تو ذہنوں میں نفرت کا رس گھول رہے ہیں۔مگر ہمارے ہاں بعض صحافتی و سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت تشویش ناک ہے ۔اس میں شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ کے ابلاغ کی رسم بہت تیزی سے پھیلی اور اس سے معاشرے میں انارکی، نفرت اور فکری انتہا پسندی کو عروج ملا۔ڈیجیٹل دہشت گردی یا انتہا پسندی دور جدید میں جنگ کی نئی اصطلاح اور قسم کہ جو ہتھیاروں کی بجائے معلومات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہے۔معلومات اور شعور کے نام پر ذہنوں کو پراگندہ، اخلاقیات تباہ اور لوگوں کو فکری انتہا پسندی کے شکنجے میں کس کر اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔اب تو گمراہ کن معلومات کی اتنی بھر مار ہے کہ سچ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔بداخلاقی، نفرت اور تعصب کے پودے اب پھل دینے لگے مگر حکومتیں ہوں یا ادارے مدتوں سوئے رہے ۔ پاکستان میں علیحدگی پسندوں کا غلغلہ تو ایک مدت سے ہے اور ان کے سیاسی نمائندگان ایک طرف کھلے عام ریاست مخالف مہم پر تو دوسری طرف دشمن کے ایما پر ڈیجیٹل دہشت گردی کے منصوبہ کو بھی کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں،عام شہری کسی نہ کسی حد تک اس کا اثر قبول کر رہے ہیں بالخصوص نئی نسل کے ذہنی پراگندگی کا شکار ہو رہی ہے۔

Exit mobile version