سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ فتنہ ہندوستان اور ایک مخصوص سیاسی جماعت پچھلے تین سالوں میں جس انداز سے پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کو مسلسل اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت حرف تنقید بنا رہی ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ۔مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے حالیہ بیان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے کردار اور ذمہ داریوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے دہشتگردانہ مواد کو فوری طور پر ہٹائیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری ڈیجیٹل دہشتگردی کے خلاف اپنا فعال کردار ادا کریں۔اسی ضمن میں غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پاکستان آزادی اظہار کے حق کا مکمل احترام کرتا ہے، مگر اس کی آڑ میں ملک دشمن پروپیگنڈے، شدت پسندانہ سوچ اور دہشتگردوں کی بھرتی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اسی ضمن میں طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ”ہم آزادی اظہار کو خاموش نہیں کر رہے بلکہ اسے دہشتگردی کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنا رہے ہیں کیوں کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک ناقابلِ تردید کردار ادا کر چکا ہے اور آج بھی بین الاقوامی سطح پر اس خطرے کے خلاف ایک مؤثر مورچہ بنا ہوا ہے۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پاکستان نے نہ صرف سکیورٹی فورسز کی قربانیوں سے اپنے داخلی امن کو بحال کیا بلکہ سوشل میڈیا پر موجود شدت پسند نیٹ ورکس کیخلاف بھی بھرپور اقدامات کیے۔وزیر مملکت برائے داخلہ نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے سوشل میڈیا پر دہشتگردی سے منسلک سینکڑوں اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے اور ایسے مواد کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں 2,417 شکایات اس وقت زیرِ غور ہیںجن کا تعلق دہشتگرد مواد یا اس کی تشہیر سے ہے۔طلال چوہدری نے عالمی برادری کو یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے داعش خراسان (ISـK) اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، جب کہ امریکہ اور برطانیہ نے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کو باقاعدہ دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تمام تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے بدستور اپنا پروپیگنڈا پھیلا رہی ہیں، نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں، اور ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔اس تما م صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کا مؤقف واضح ہے: اگر ان تنظیموں پر اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں پابندی عائد کر چکی ہیں، تو پھر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے اکاؤنٹس اب تک فعال کیوں ہیں؟اسی جمن میں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف، بیرسٹر عقیل نے واضح کیا کہ پاکستان میں پیکا ایکٹ کے تحت دہشتگردی، نفرت انگیزی، اور ریاست مخالف مواد قابلِ سزا جرم ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر سوشل میڈیا کمپنیوں سے **ڈیٹا شیئرنگ، دہشتگردانہ مواد کی خود کار بلاکنگ، اور مشتبہ اکاؤنٹس کی معلومات تک رسائی** کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے ان کمپنیوں کو یہاں دفاتر قائم کرنے کی دعوت بھی دی ہے تاکہ براہِ راست رابطہ قائم ہو اور تعاون میں بہتری آئے۔یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشتگرد تنظیمیں جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔واضح رہے کہ یہ گروہ فیس بک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، یوٹیوب، انسٹاگرام، اور دیگر پلیٹ فارمز پر منظم طریقے سے پروپیگنڈا چلا رہے ہیں اور نوجوانوں کو گمراہ کرنا، ریاست مخالف جذبات ابھارنا، اور شدت پسندی کو بڑھاوا دینا ان کا مرکزی ہدف ہے۔اس تناظر میں پاکستان کا مؤقف بالکل واضح اور حقیقت پسندانہ ہے: جب تک ان پلیٹ فارمز پر دہشتگردی سے جڑا مواد موجود رہے گا، تب تک عالمی امن کو حقیقی خطرات لاحق رہیں گے ۔ ایسے میں غالبا وقت آگیا ہے کہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں محض ”آزادی رائے کے نام پر” انتہا پسند عناصر کو آزادی دینے کے بجائے حقیقی خطرات کا ادراک کریں اور فوری اقدامات اٹھائیں۔ پاکستان نے نہ صرف اپنے داخلی قوانین کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی باور کروایا ہے کہ یہ صرف ایک قومی مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی امن و سلامتی کا سوال ہے۔پاکستان کی جانب سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو دفاتر کھولنے کی دعوت، خود کار بلاکنگ سسٹمز کی تنصیب، اور ڈیٹا شیئرنگ کا مطالبہ دراصل ایک سنجیدہ حکمتِ عملی کا حصہ ہے ۔ اگر دنیا واقعی دہشتگردی کے خلاف متحد ہے تو ڈیجیٹل دہشتگردی کے خلاف بھی عالمی اتحاد ضروری ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ دنیا، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں، اس خطرے کا ادراک کریں اور ذمہ داری سے کام لیں۔
ڈیجیٹل دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی موثر آواز
