Site icon Daily Pakistan

کشمیر اور کشمیریت؟

فروری ہر سال پاکستان کی عوام، حکومت، سیاسی اور عسکری قیادت یوم یکجہتی کشمیر اس تجدید عہد کے ساتھ مناتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرےگی ۔ پاکستان کےلئے یوم یکجہتی کشمیر اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ5اگست 2019 کو بھارت کی نریندرمودی سرکار نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ اور خصوصی حیثیت ختم کرکے پوری تحریک آزادی کشمیر پر شب خون مار دیا ہے جبکہ بھارتی عدالت عالیہ نے بھی نریندرمودی حکومت کے فیصلے کی توثیق کردی ہے۔جس سے کشمیر کی تحریک میں ایک بہت بڑا المیہ پیدا ہوگیا ہے پاکستان کی 25 کروڑ عوام اس سال یوم یکجہتی کشمیر ایک ایسے وقت میں منا رہی ہے جب 80 لاکھ سےزائد کشمیریوں کو بھارت کی 8 لاکھ افواج نے گن پوائنٹ پر یرغمال بنا رکھا ہے یہ ظلم جبر و استبداد کی انتہا ہے بھارت نے پاکستان کےلئے کچھ اس طرح کے چیلنجز اور مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
1-کشمیر کی ساری سیاسی قیادت کو منظرنامے سے ہٹانے کےلئے مختلف جیلوں میں قید کر رکھا ہے جن میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک، آسیہ اندرابی، نعیم خان، فاروق احمد ڈار، اور دوسرے حریت سیاسی رہنما شامل ہیں جبکہ حریت کانفرنس کے بڑے لیڈر میر واعظ عمر فاروق کو گھر میں نظر بند کر کے رکھا ہوا ہے سید علی گیلانی مرحوم آزادی کی طویل جنگ لڑتے لڑتے جہان فانی سے چل بسے ہیں جن کی موت آزادی کے متوالوں اور پاکستان کےلئے بڑا نقصان ہے۔
2- اس خبر نے بھی ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا کہ جب سرینگر کا دورہ کرنے والی بھارتی خواتین نے ایک پریس کانفرنس کے زریعے بتایاتھا۔ کہ سولہ سال سے کم عمر 13ہزار کشمیری بچوں کو بھارت نے قید میں رکھا ہوا ہے چونکہ نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جس طرح کشمیری یوتھ نے تحریک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا بھارت کےلئے خطرہ یہ ہے کہ کشمیری یوتھ بے قابو ہوسکتی ہے۔
3- کشمیر کی اقتصادی حالت تشویشناک ہے۔
4-تمام تر تعلیمی ادارے بری طرح کنٹرولڈ ہیں اور نفسیاتی طور پر کشمیر کی نوجوان نسل کو بھارت کی غلامی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
5-لوگوں کی روزمرہ زندگی سخت مشکلات کا شکار ہے ایک فرسٹریشن کا عالم ہے۔
6- انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر سخت پابندیاں ہیں مین سٹریم میڈیا بلیک آوٹ ہے اور بنیادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔
7-بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں انتہا پسند ہندوﺅں کو لاکر کشمیر میں آباد کررہا ہے تاکہ مسلمان اکثریت کی آبادی کو اقلیت میں بدلا جائے ۔
پاکستان کی حکومت، قوم سیاسی اور فوجی قیادت کو فوری طور پر ان اہداف کا تعین کرنا ہے کہ کسطرح بھارت کو کاونٹر کرنا ہے جو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کےلئے مشکلات بھارت نے پیدا کررکھی ہیں آج پاکستانی قوم کو فیصلہ بھی کرنا ہے اور کوششیں بھی تیز کرنی ہیں کہ بھارت نے کشمیریوں کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں اور جو چیلنجز پیدا کر رکھے ہیں ان سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے اپنی سفارتی کوششوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اقوام عالم کو کس طرح متحرک کیا جائے یورپین یونین میں کس طرح لابی کی جائے او آئی سی کو کسطرح فعال بنایا جائے برطانوی پارلیمنٹ اور امریکہ میں کس طرح بھارت کے مقابلے میں ہم کشمیر پر اپنا نکتہ نظر پیش کریں کہ ہماری سفارت کاری موثر ثابت ہو۔ محب وطن پاکستانیوں اور کشمیریوں کے زہنوں میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جو کشمیر کی تحریک سے وابستہ ہیں یا کشمیر اور کشمیریوں کے کےلئے انکے دل تڑپتے ہیں جو لوگ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں جنہیں حالات کی سنگینی کا ادارک ہی نہیں اور روایتی طور پر رٹی رٹائی تقریریں کرکے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں ان سے مخاطب ہونا لاحاصل ہے سوالات کچھ اس طرح کے اٹھتے ہیں ۔1-نئی قیادت اور آئندہ قائم ہونے والی حکومت پاکستان کشمیر کی صورتحال میں کیا اقدامات اٹھانے جارہی ہے؟
2-پاکستان کو داخلی خارجی سیاسی اور معاشی طور پر بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ان حالات میں مسئلہ کشمیر پر ہم کیا توقعات وابستہ رکھیں؟
3-امریکی صدر اور امریکہ سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کتنا بھروسہ مند ہے ؟
4- کشمیر پر ان حالات میں میں کیا پاکستان پر لازم نہیں ہے کہ ایک اسلامی کانفرنس بلانی چاہئے؟
5-کشمیر اگر قومی مسئلہ ہے تو کیا حکومت پاکستان کو ایک آل پارٹیز کانفرنس فوری طور پر نہیں بلانی چاہئے؟
6-آزادکشمیر اور بیرون ملک آباد کشمیریوں کو ان حالات میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے ان کو متحد کرنا کس کی ذمہ داری ہے ہم غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ دینے کے بجائے ان لوگوں کو متحد کیسے کرسکتے ہیں جو اس وقت پاکستان کی اندرونی سیاست اور انداز حکمرانی سے مایوس ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کی تحریک بڑے نازک دور میں داخل ہوچکی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی حالت تشویشناک ہے اور پاکستان واحد ملک ہے جس نے اس تحریک کے لئے جان و مال کی قربانیاں ماضی میں دی ہیں اور اگر ہم نے اس وقت کو یوں ہی ضائع کردیا تو تاریخ نہ ہمیں معاف کرے گی اور نہ ہی وہ مائیں ہمیں معاف کریں گئیں جن کے بیٹوں نے اپنے خون سے اس تحریک کو سینچا ہے ایک صدی کی جدوجہد ہے ان کشمیریوں کے حوصلے دیکھیں جو ان حالات میں بھی اپنے شہدا کو سبز ہلالی پرچم میں دفن کرتے ہیں،آخر میں امریکہ میں مقیم پروفیسر رفیق بھٹی صاحب کا ایک مراسلہ کالم میں شامل کیا جاتا ہے یہ مراسلہ کشمیری حلقوں میں اندرونی بحث کے تناظر میں بہت معلوماتی ہے۔لفظ کشمیر کا مطلب صرف وادی کشمیر نہیں یہ پوری ریاست کی نمائندگی کرتا ہے کچھ کم علم اور شائد شرارتی لوگ اس کے معنی وادی تک محدود کر کے ابہام اور غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں قدیم زمانے سے لوگ برِصغیر کو تین ناموں تین خطوں سے جانتے تھے اول سندھ، دوم ہند اور سوم کشمیراگر آپ شاعروں ادیبوں ناول نگاروں تاریخ دانوں کی تحریریں پڑھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ لفظ کشمیر اس پورے خطہ کےلئے استعمال ہوتا آرہا ہے حتی کہ اسد اللہ خان غالب نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے۔
میر کے دیوان کا احوال نہ پوچھو غالب
اس کا ہر شعر کم از گلشنِ کشمیر نہیں
اقبال نے تو اپنی شاعری نثر اور خطبات میں متعدد بار کشمیر اور خط کشمیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اس باغِ جانفزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ہندستاں میں آئے ہیں کشمر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور
ایک اور معروف ایرانی شاعر یوں لکھتا ہے
ہزار قافل شوق می کشد شب گیر
بہارِ عیش کشائد بہ عرص کشمیر
ایک اور فارسی شعر دیکھیں
کشمیر با صباحت روشن گرِ جمال است
حسنِ سیاہ آں جا گر است خال خال است
بات لمبی ہو جائے گی دل کے کسی گوشے میں نہ آنے دیں کہ کشمیر کا لفظ صرف وادی کے لئے استعمال ہو رہا ہے یہ سوچ ہماری وحدت کو توڑنے والوں کی اختراع ہے جو یاتو لا علمی یا بدنیتی پر مبنی ہے جب کوئی کہتا ہے کہ میں کشمیری ہوں تو اس کا مطلب ہے وہ ریاست جموں کشمیر کا رہنے والا ہے وادی کا نہیں کشمیر ایک قدیم اور عظیم خطہ ہے فساد اور تضاد پیدا کرنے والوں سے گریز اور پرہیز کریں شکریہ

Exit mobile version