زندگی میں اگر کوئی رشتہ بغیر کسی شرط، بغیر کسی بدلے کے دعا دیتا ہے، تو وہ والدین کا رشتہ ہے ۔ ان کی بیلوث محبت، دعائیں اور قربانیاں ایک ایسی دولت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میرے دل میں ایک واقعہ ہمیشہ زندہ رہے گا جو اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک نہ صرف دنیا میں کامیابی دلاتا ہے، بلکہ اولاد کے دلوں میں آپ کیلئے محبت اور احترام کو نسل در نسل قائم رکھتا ہے۔ یہ 1977 کی بات ہے، جب میں روزگار کی تلاش میں سعودی عرب گیا۔ نہ نوکری تھی نہ رہائش۔ ایک کمرے میں ڈرائیوروں کے ساتھ رہتا تھا، جہاں حالات سخت اور آزمائشیں کٹھن تھیں۔ مگر دل میں ایک تڑپ تھی کہ والدین کیلئے کچھ کر سکوں۔ انہی دنوں ایک دن سردار عبدالقیوم خان صاحب کو پہلی بار دیکھا۔ ان کی شخصیت، لباس اور انداز نے دل کو چھو لیا۔ میں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ اگر کبھی مجھے اللہ نے موقع دیا، تو میں بھی اپنے والد کیلئے ایسی ہی عزت اور خوشیاں خریدوں گا۔ جب مجھے پہلی تنخواہ ملی تو دل چاہا کہ سب سے پہلے والد کیلئے کچھ خاص کروں۔ قمیض، شلوار، واسکٹ، گھڑی، اور امریکن ٹوریسٹر بیگ خریدا اور پاکستان بھیجا۔ میری کمائی معمولی تھی، مگر والد کی خوشی میرے لیے سب کچھ تھی۔ جب انہوں نے وہ لباس پہن کر تصویر بھیجی، تو دل ایک عجیب سکون اور فخر سے بھر گیا۔ وہ تصویر آج بھی میری یادوں کا قیمتی خزانہ ہے۔ زندگی کے مشکل دنوں میں بھی میں نے اپنے بہن بھائیوں کیلئے دل کھول کر کام کیا۔ ان کی تعلیم، ضروریات اور خوابوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا۔ بڑا بھائی ہونے کا جو جذبہ مجھے ملا، وہ میرے والد کی تربیت کا ثمر تھا۔ 2009میں جب اللہ نے مجھے اپنے رنگ میں رنگا، تو میں نے اپنے بیٹے کیلئے ایک جدید موبائل خریدا جو اس وقت یہاں کے لوگوں کے لیے حیران کن چیز تھی۔ اس موبائل کا چارجر بھی سب کو نیا لگتا تھا۔ یہ تحفہ میری پہلی تنخواہ سے تھا، اور شاید اسی نیکی نے مجھے زندگی میں کئی بار اللہ کی مدد محسوس کرائی۔ پچھلے دنوں میرے بیٹے دلدار نے دبئی سے میرے لیے ایک قیمتی موبائل تحفے میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ موبائل ایک جنازے میں چوری ہوگیا۔ جب میں نے اسے نیا لینے سے منع کیا، تو اس نے کہا: "ابا جی، آپ نے ہمارے لیے سب کچھ کیا ہے، یہ موبائل تو کچھ بھی نہیں۔”اس وقت جو خوشی اور سکون میرے دل میں آیا، وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ یہ سب واقعات مجھے بار بار یاد دلاتے ہیں کہ والدین کیساتھ جو سلوک کیا جائے ، وہی اولاد سے واپس ملتا ہے ۔ ماں باپ کی خدمت، محبت، اور دعاوں کا اثر نسلوں تک جاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کیلئے اللہ نے فرمایا:”کما ربیانی صغیرا”جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ بیرون ملک رہنے والے لوگ جو ریال، درہم یا ڈالر کماتے ہیں، وہ پیسے سے زیادہ محبت نچھاور کرتے ہیں۔ ان کے اندر والدین، رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے ایک عجیب سی بیلوث محبت ہوتی ہے، جو کئی بار ہم وطنوں سے زیادہ گہری محسوس ہوتی ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر، میں نے اپنے والدین کی دعائوں کو اپنی ڈھال بنتے دیکھا۔ ماں باپ کی خدمت کا صلہ اللہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ جو انسان ماں باپ کا دل جیت لیتا ہے، وہ درحقیقت خدا کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔ یہ کالم صرف میرے جذبات کا اظہار نہیں بلکہ ایک پیغام ہے کہ والدین کی محبت کو کبھی فراموش نہ کریں۔ ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں، کیونکہ یہی کامیابی، سکون اور عزت کا راستہ ہے۔
کما ربیانی صغیرا: والدین کی خدمت کا انعام
