پاکستان میں کسی کو کچھ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اس کیلئے کس ثبوت کی ضرورت نہیں ۔ نہ کوئی سمجھتا ہے نہ کوئی سمجھا سکتا ہے ۔ جمہوریت کے پاسبان آمریت کے پاسدار بن کر جمہور کو یرغمال بنا لیں تب بھی پاسبان ہیں۔ اپ نگہبان بن کر لوٹ لیں تب بھی نگہبان , قہر ڈھائیں تب بھی مہربان ہیں ۔ جمہوریت کو تقویت دینے والے اقدامات کو طبقہ اشرافیہ کیلیے خطرہ جان کر ان سے بچنے کیلئے عدلیہ اور اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ غیر منتخب افراد جنکو الیکشن میں عوام نے مسترد کیا ہوتا ہے پارٹی رہنما سے قربت پر مشیر وزیر بنا دئیے جاتے ہیں ۔ یہاں پر خصوصی نشستوں کے نام پر اپنے قریبی رفقا کو عوامی نمائندگی کیلیے منتخب کرایا جاتا ہے ۔ یہی لوگ پھر الیکٹرونک میڈیا پر پریس کانفرنسوں اور بیانات سے خوشامد اور اپنے آقاں کے مفاد کیلیے اصولوں کو روند کر آقاں کو جمہوریت کیلیے ناگزیر قرار دیتے ہیں ۔ ایسے مسترد سیاسی مفاد پرست ہی سیاسی مردہ کو زندہ اور نااہل رہنماں کو قوم کا مسیحا بنا بتا کر انکے سیاسی بت بناتے اور انہیں زندہ رکھتے ہیں ۔ یہ جمہوری کلچر ہے جس میں اکثریت دفعہ 144 نافذ رہتا ہے ۔ جس میں سیاسی جدوجہد کو بغاوت ثابت کیا جاتا ہے ۔ جس میں سیاسی مخالف باغی اور دہشت گرد ملک دشمن اور اسکا ہر قدم بیرون لابی کی مضبوطی کیلیے ہوتا ہے ۔ بیشک قائد مسلم لیگ امہ مسلمہ کی امید یہودیوں کے مربی انکے پشت بان امریکی سربراہ کے ساتھ فوٹو سیشن کو زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھ کر کرا رہا ہو۔ یہودی ریاست کے پشت بان کے کندھے سے کندھا ملا کر مسکراتے پورے فخر سے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پریس کو پوز دیکر پریس کانفرنس میں امریکہ کو اپنا معاشی نگہبان اور پارٹنر قرار دے۔ وہی امریکا اقوام متحدہ کے اسی سیشن میں اسرائیل کے دفاع کیلئے ہر اقدام اٹھانے کا اعلان کر چکا ہو ۔ پھر بھی ہم اسکے ساتھ کھڑے ہو کر فلسطینی کاز کے حقیقی ترجمان ہیں ۔ اسی اسرائیل کو جسکو امریکہ اسلحہ اور معاشی امداد سے مسلم امت کو توڑنے کیلیے استعمال کر رہا ہے کے ساتھ ہم حلیف بن کر کھڑے ہیں ۔ یہ جمہوریت ہے جہاں گزشتہ دور کی حکمران سیاسی جماعت جس نے پچھلے دور میں ملک پر حکومت کی اور الیکشن میں باوجود اس کو روکنے کے اس کی ایک صوبہ میں حکومت ہے سینٹ میں اور تقریبا ہر صوبہ میں نمائندگی موجود ہے اس کو ملک کا الیکشن کمیشن سیاسی جماعت تسلیم نہیں کرتا ۔ اسکا انتخابی نشان لے لیا جاتا ہے ۔ گزشتہ کے حکمران جنکو عدالتوں سے نااہل قرار دلوایا گیا تھا انکو اہل قرار دلوایا گیا ۔ ان پر احتساب کے کیس ختم کرائے گئے ۔ ایک سیاسی جماعت جو 2دہایوں سے ایک نام اور ایک انتخابی نشان پر سیاست کر رہی ہے اسکو بیک جنبش قلم سیاسی جماعت تسلیم نہ کرنا پہلی روایت نہیں ۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی تلوار سے تیر اور مسلم لیگ سائیکل سے شیر بنائی گئی تھی ۔ سیاسی جماعت کو جلسہ کرنے کیلیے اسطرح رویہ رکھا جاتا ہے جیسے کوئی شادی بیاہ کا فنکشن 3سے 6بجے ہو اور وقت مقررہ پر لائٹس بند کر دی جائیں ۔ آج تک کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جلسے کب اور کس جماعت نے اس پابندی کے ساتھ کیے اور کب کس نے کرائے ۔آمریت میں بھی جلسے منعقد ہونے سے روکا جاتا تھا لیکن جلسے کا اختتامی وقت کبھی سامنے نہیں آیا ۔ میں کبھی بھی دادا گیری مولا جٹ سٹائل سیاست کا حامی نہیں رہا ۔ حالانکہ میری تربیت ہی ضیا دور کے مارشل لا اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن راولپنڈی کینٹ میں ہوئی ۔ میں نے سیاست میں مفاد اور خدمت کے فرق کو جیسے ہی محسوس کیا سمجھا ویسے ہی ایسی سیاست سے خود کو الگ کر لیا ۔ میرے ہم عصر دوست ساتھی راولپنڈی کی سیاست میں آج بنیادی مرکزی رول ادا کر رہے ہیں ۔ سیاست میں جگا گیری اور ڈرائنگ روم کی سازشوں سے آگے بڑھنے کی ترکیب نے سیاست سے خدمت اور عوام کو یکسر باہر کر دیا ہے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت حقیقی جمہوریت کا چہرہ نہیں سب نے جمہوریت کا نقاب اوڑھ رکھا ہے ۔ ایسی جمہوری سوچ و رویہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینئر ترین لیڈر شپ میں سے کوئی پارٹی کی قیادت کا اہل نہیں۔ بلاول کو پال کر سیاسی تربیت کر کے اپنا سربراہ بنایا گیا۔ مسلم لیگ کو میاں فیملی سے باہر کوئی قابل قبول نہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کے خاندان سے باہر جے یو آئی کے مرکزی عہدہے نہیں جاتے اے این پی غفار خان فیملی کی ملکیت ہے ان جماعتوں کے انتخابات کتنے شفاف کتنے جمہوری ہیں ۔ کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان سے صاحبان اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ۔ آج تحریک انصاف بھی میثاق جمہوریت میں شامل ہو جائے وہ سیاسی جماعت اور اسکے الیکشن سب تسلیم کر لیا جائے گا ۔ حکمران یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ضیا بھٹو کو مار کر بھی نہیں مار سکا بلکہ اسے امر کر گیا ۔ آج اسکا نواسہ بھی نام کے ساتھ بھٹو لگا کر اسی نواز شریف کا سیاسی حلیف ہے جسے ضیا نے بھٹو کا سیاسی مقابلہ کرنے کیلیے لانچ کیا تھا ۔ ضیا دور سے لیکر آج تک ضیا کی کابینہ کے ممبران میں تواتر سے اکثریت سیاسی خانوادے حکومت کا حصہ رہے اور ہیں ۔ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے قومی خزانہ لوٹا ۔ گزشتہ تو بھٹو کی پارٹی ضیا کا مارشل لا اور مسلم لیگ اور ن ہمراہ جماعت اسلامی پھر بھٹو کی بیٹی پھر مسلم لیگ ن پھر بھٹو کی بیٹی پھر مسلم لیگ ن پھر مشرف کا مارشل لا اور مسلم لیگ چودھری شجاعت لیڈر بدلا باقی پارٹی وہی پھر مسلم لیگ ن اور پھر تحریک انصاف چار سال کیلیے آج پھر پیپلز پارٹی اور ن گورنمنٹ میں ہیں لیکن ملک کو لوٹا عمران خان اور اسکے حواریوں نے ہے ۔ پہلے پیپلز پارٹی ملک دشمن تھی جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتیں غیر ملکی فنڈ لیکر انکا ایجنڈا چلاتی اور انکے مفادات کا تحفظ کرتی تھیں ۔ بلوچ قوم پرست ایم کیو ایم بھی ایسے ہی تھے ۔ حالات نے کروٹ لی بہن بھائی کا رشتہ بنا پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ کی طرح پرو پاکستانی ہو گئی۔ الذوالفقار انڈین ٹینکوں پر بیٹھ کر انے کے بیان سب اڑان چھو ۔ کسی کا کوئی غیر ملکی فنڈ نہیں کیونکہ اب حکومتی باریاں اور صوبے طے کر ہو گئے ۔ کون کیا تھا اور کیا ہو گیا اب بھی سامنے ہے ۔
کون کیا ہے ؟

