Site icon Daily Pakistan

کیا تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے

بابا کرمو کو عید کا مزید گوشت دینے گیا۔ شکر کی چائے پلائی۔ پوچھا اے سی نہ ہونے کے باوجود ٹھنڈا کیسے ہے کہا اس کمرے کی دیواریں تیرہ انچ کی ہیں۔ دیواروں کی چنائی مٹی کی ہے۔اس کے علاوہ کوئی سیمنٹ ریت کا پلستر نہیں کیا۔ مٹی اور بھوسے سے دیواروں کی اندر باہر سے لیپ کر رکھا ہے۔ چھت کی انچائی بیس فٹ سے زیادہ ہے۔پانی کا گھڑا مٹی کا ہے جسے گیلی ریت پر رکھا ہے۔ ایک بلب ایک پنکھے سے کام چل رہا ہے۔ کوئی ٹینشن نہیں۔ خوش ہیں۔ پوچھا بابا جی موجودہ ایران اسرائیل کی جنگ پر آپ کا کیاتبصرہ ہے ۔کیا تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔ بابا کرمو نے کہا یہ سوال بہت اہم اور گہرا ہے کہ کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب جا رہی ہے یا عالمی جنگ کا خطرہ ہے کیا ؟”اس کا سیدھا جواب میرا یہ ہے ،ابھی نہیں، لیکن خطرات بڑھ رہے ہیں”موجودہ حالات میں بڑی جنگ کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ کہا اسرائیل کے حملے اور ایران کا جوابی ردعمل علاقائی جنگ کو عالمی جنگ میں بدل سکتا ہے۔ اگر امریکہ، روس، یا چین کسی فریق کے حق میں براہ راست مداخلت کرتے ہیں تو یہ جنگ عالمی سطح پر پھیل سکتی ہے۔کہا روس یوکرین جنگ نیٹو اور روس کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس نے کئی بار اشارہ دیا ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ چین اور تائیوان کشیدگی بھی برقرار ہے اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ مداخلت کرے گا، جس سے جنگ ایشیا میں بھی پھیل سکتی ہے ۔ شمالی کوریا کی دھمکیاں ۔شمالی کوریا مسلسل میزائل تجربات کر رہا ہے اور امریکہ و جنوبی کوریا کو دھمکیاں دیتا ہے۔ عالمی جنگ کی راہ میں رکاوٹیں فی الحال ایٹمی اسلحہ کا خوف ہے تمام بڑی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو یہ دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ Mutual Assured Destruction (MAD) کا نظریہ ابھی تک جنگ روکنے میں کارگر ہے۔ عالمی معیشت اس قدر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے کہ بڑی جنگ سب کے لیے نقصان دہ ہوگی۔سفارت کاری اور اقوام متحدہ:کئی ممالک اب بھی سیز فائر مذاکرات اور ثالثی پر زور دے رہے ہیں۔پوچھا کیا جنگ کے خطرات بڑھ رہے ہیں؟ کہاجی ہاں، خاص طور پر مشرقِ وسطی ٰیورپ اور ایشیا میں۔ کیا تیسری عالمی جنگ یقینی ہے؟کہا ابھی نہیں، لیکن امکانات پہلے سے زیادہ تشویشناک ہیں ۔ پوچھا کیا کوئی حل باقی ہے؟ کہا جی ہاں، مگر اس کے لیے بڑی طاقتوں کو سفارت کاری اور صبر سے کام لینا ہو گا ۔تیسری عالمی جنگ کے امکانات: 2025 میں خطرات اور روک تھام کے راستے پر ہے۔پوچھا کہ ایران کی جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ کہا یہ ایک بہت پیچیدہ سوال ہے، کیونکہ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ اگر بات امریکہ یا اسرائیل جیسے طاقتور ملک کے ساتھ جنگ کی ہو تو یہ محدود فضائی حملوں سے لے کر ایک مکمل علاقائی جنگ تک جا سکتی ہے۔اگر یہ جنگ صرف داخلی سطح پر، جیسے کہ اندرونی فسادات یا مسلح گروپوں سے ہو، تو انجام مختلف ہوگا۔ علاقائی اثرات:ایران کے اتحادی جیسے حزب اللہ(لبنان)، شامی حکومت، اور کچھ عراقی ملیشیا گروہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی براہِ راست یا بالواسطہ متاثر ہوں گی۔پوچھا عالمی ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ کہا یہ ہو سکتا ہے کہ روس اور چین جیسے ممالک ایران کیلئے سیاسی یا عسکری مدد فراہم کر سکتے ہیں۔امریکہ، یورپ، اور نیٹو ممالک شاید ایران کے خلاف کھڑے ہوں.پوچھا اقتصادی نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔کہا تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے عالمی منڈی متاثر ہوگی۔ایران کی معیشت پہلے ہی پابندیوں سے دبا میں ہے جنگ کی صورت میں مزید بدتر ہو سکتی ہے۔پوچھا کہ اس جنگ کے ممکنہ انجام کیا ہوگا۔ کہامنظرنامہ ممکنہ انجام:محدود جنگ مثلا ًفضائی حملے قلیل مدتی نقصان، مگر طویل مدتی کشیدگی برقرار رہ سکتی ہے۔ مکمل جنگ خطے میں عدم استحکام، ہزاروں ہلاکتیں، حکومت کی تبدیلی کا امکان داخلی خانہ جنگی ایران کی تقسیم یا حکومت کا خاتمہ، مہاجرین کا بحران سفارتی حل نکل آئے۔وقتی سکون، مگر تنازعہ جوں کا توں رہے گا۔ کہا یاد رہے اسرائیل وہ بندر ہے جس کے ہاتھ میں استرا ہے۔ جس سے وہ کبھی کسی کے کان کاٹتا ہے کبھی ناک۔ آبادی کے لحاظ سے اسرائیل چھوٹا ملک اس لیے ہے کہ کوئی دوسرے مہذب کا اسرائیلی مہذب میں شامل نہیں ہو سکتا۔اسرائیلی نہیں کہلاتا ہے۔ اسرائیلی وہی کہلاتا ہے جو اسرائیلی ماں سے پیدا ہو۔ اسرائیلی امریکا میں ہی نہیں دنیا کے ہر شعبے میں چھا ہوئے ہیں۔ ان کا امریکا میں میڈیا اور معیشت پر کنٹرول ہے۔ امریکہ کی سیاست پر اسرائیلی چھائے ہوئے ہیں۔ جسے چاہتے ہیں اسے اقتدار کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔ یہ لمبی پلاننگ کرتے ہیں لہٰذا نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہان انکی مرضی سے بنتے ہیں۔مسلم ممالک میں اتحاد نہیں ہونے دیتے۔ مختلف حوالے سے ان کے درمیان مذہبی فرقہ بندی کرتے رہتے ہیں نفرتیں پھیلانے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف کان بھرتے رہتے ہیں۔ ابھی تک اس پالیسی پر وہ کامیاب بھی ہیں۔کہاجاتا ہے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں کہا ہے کہ ایران کے بعد پاکستان کی باری ہے۔ شائد انہیں بھارت جیسی ہمارے بارے میں غلط فہمی ہے۔ باریاں لگانے والے بھارت سے پوچھ لیں کہ کیا ایسا ممکن ہے تو بھارت بتائے گا کہ پاکستان کیا ہے۔ ہوش کے ناخن لو۔ دنیا کا امن برباد نہ کرو۔

Exit mobile version