ایک دفعہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان کی پہلی بنیاد اس دن رکھی گئی تھی جب محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔یہ دس رمضان المبارک کا دن تھاجب اروڈ نزدروہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ فتح سندھ اسلامی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔دنیا نے دیکھا کہ 17سالہ نوجوان چند ہزار جانبازوں کو ساتھ لے کر دور دراز کے فاصلے سے اجنبی سرزمین ہند میں داخل ہوا ۔ اس کے سامنے یہاں کے بڑے بڑے راجوں ، مہاراجوں کی بے پناہ مادی قوت بے بس ہو کر رہ گئی۔محمد بن قاسم کے پاس محدود وسائل تھے۔مختصر سی جماعت تھی اور راستہ نہایت دشوار گزار ، مگر اس باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح نے اسلام دشمنوں کو نہ صرف اقتصادی اور مادی لحاظ سے فتح کیا، بلکہ ان کے دل و دماغ بھی اسلام کے لئے مسخر کرلئے۔ 80 ھ میں سراندیپ ( موجودہ سری لنکا) سے دمشق جانے والے ایک بحری جہاز کو جس میں وہاں کے راجا کی طرف سے بھیجے گئے تحائف لدے تھے اوربعض مسلمان عورتیں‘ بچے اورتاجر بھی سوار تھے سندھ کی بحری حدود میں ڈاکوﺅں نے لوٹ لیا اور عورتوں اوربچوں کو یرغمال بنا لیا۔ حجاج بن یوسف نے خلیفہ عبدالملک کی جانب سے راجا داہر کو لکھا کہ یہ واردات تمہارے علاقے میں ہوئی ہے لہٰذا تم اس کا انتقام لو مگر راجا نے بے بسی ظاہر کی ۔ حجاج نے تین بار یہاں لشکر بھیجے لیکن راجا داہر کی سرپرستی کے باعث وہ ڈاکوﺅں سے مقابلے میں ناکام رہے ۔ 93 ھ میں محمد بن قاسم ایک لشکر کے ہمراہ سندھ پہنچے اور ڈاکوﺅں اور ان کے سرپرست راجا داہر کو شکست فاش سے دو چار کیا۔ محمد بن قاسم نے سندھ میں امن قائم کیا برسوں سے شخصی حکمرانی کے شکار عام آدمی کو اسلامی سلطنت کے زیر سایہ مساوی درجہ دیا۔ مملکت کے انتظامات بہتر بنائے اور نظام انصاف قائم کیا۔ محاصل کی وصولی کے قواعد آسان اور اتنے بہترین تھے کہ مسلمانوں سے اراضی پر عشر ‘ لگان اور غیر مسلم راجاﺅں سے خراج نیز مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں سے وصول شدہ جزیہ ملک میں عوام کی بہبود پر خرچ کیا جاتا۔ جن کا شتکاروں کی پیداوار کم تھی انہیں سرکاری لگان کی معافی دی جاتی۔فتح سندھ کے بعد بزرگوں اور پرامن شہریوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ احترام آدمیت کے یہ مناظر اہل سندھ کو محمد بن قاسم کا گرویدہ کر گئے۔مقامی لوگ انہیں فرمانروا سے زیادہ اپنا بھائی ‘بزرگ اور خاندان کا سربراہ یعنی مسیحا سمجھنے لگے تھے۔برصغیر میں پہلی اسلامی ریاست محمد بن قاسم نے قائم کی جسے بعد میں صفاریوں‘ ہباریوں‘ مغلوں ‘ ترخانوں‘ غزنویوں‘تغلقوں اور غوریوں وشیرشاہ سوری نے وسعت دی دلچسپ امر یہ ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر بمشکل ساڑھے تین برس حکومت کی لیکن طرز حکمرانی سے لیکر رعایا کے دل جیتنے تک اتنے واضح ‘ گہرے ‘ بھرپور اور دلکش نقوش چھوڑے کہ 15 ویں صدی ہجری میں بھی اسے یہاں کے باشندے یاد رکھے ہوئے ہیں۔محمد بن قاسم صرف فاتح ہی نہ تھا، بلکہ ایک مبلغ بھی تھا،کیونکہ اس نے عوام کو ایک بہت بڑے ظالم اور جابر شخص سے نجات دلائی ،حتیٰ کہ راجہ داہر کا لڑکا مسلمان ہوگیا۔سندھ کے باشندے اپنی سابقہ دشمنانہ کارروائی کی وجہ سے مسلمان فاتحین سے انتہائی سخت برتاو¿ کی توقع رکھتے تھے، لیکن انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ محمد بن قاسم نے ہر خاص و عام کے لئے معافی کا اعلان کیا۔کسی نوع کی آزادی پر پابندی نہ لگائی گئی۔حتیٰ کہ شہر کا نظم و نسق بھی ہندوو¿ں کو سونپ دیا۔دیبل کا عامل ایک پنڈت کو بنایا گیا جو قبل ازیں جیل خانے کا محافظ تھا۔ہندوو¿ں کے وظیفے اور ان کی جائیدادیں محفوظ رہیں ، بلکہ ان کو سرکاری خزانہ سے امداد دی گئی۔پجاریوں کے واجبات بھی بدستور قائم رہے او رکسی بھی شخص کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ محمدبن قاسم نے اس خطے میں اسلام کے جو بیج بوئے ان سے آخرکار شجرِ طیبہ کی شکل میں ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا۔ ابن قاسم نے سندھ سے ملتان اور بعض روایات میں کشمیر تک اسلامی دعوت کو پہنچایا۔ اور اس طرح شمال سے آنے والے مسلم فرماں رواﺅں اور جنوب میں پھیلنے والی دینی دعوت نے مل کر برصغیر ہند میں ایک نئی ثقافت اور تہذیب کی بنیادیں رکھیں، اور اس تہذیب و ثقافت نے شاہ ولی اللہ دہلوی مرحوم جیسے اہلِ علم کو عالمی سطح پر دین کا احیاءکرنے کا موقع فراہم کیا۔ شاہ صاحب کے جانشینوں میں شاہ اسماعیل شہید جیسے افراد کا ظہور ہوا۔ 10رمضان المبارک کو ہرسال یوم باب الاسلام منایا جاتا ہے۔ یہ دن محمد بن قاسم کے طفیل سندھ میں فروغ اسلام کا سبب بنا اور ارض مہران کے راستے دین حق کا پیغام سندھ سے ملتان ہوتا ہوا پورے برصغیر میں کرنیں بکھیر گیا اور 12صدیوں بعد قیام پاکستان کی صورت جو معجزہ برپا ہوا اسکا سبب بھی پہلی صدی ہجری کی وہ کوشش ہی تھی جب اسلام کا سبز ہلالی پرچم یہاں لہرایا گیا تھا۔فتح سندھ کا واقعہ اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ تھا جس میں پہلا اسلامی معرکہ بدر کے مقام پر ہوا، جس نے مستقبل میں انسانیت کے نقشے اور سمت کا تعین کیا اور نظامِ عالم کو تبدیل کرکے عدل اور توحید کی بنیاد پر ایک نیا عالمی نظام دیا۔ اس نئی تحریک، اس نئی فکر اور نئی پکار نے انسانیت کو ایک نئے روح پرور نظام سے متعارف کرایا۔اگر غور کیا جائے تو یوم باب الاسلام دراصل ایک نئی ثقافت، ایک نئی تہذیب، ایک نئے رجحان کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ محض باہر سے آئے ہوئے ایک فرد کی فتح کی داستان نہیں ہے بلکہ یہاں پر حقوقِ انسانی جن کو صدیوں سے پامال کیا گیا تھا، یہ ان کی بحالی کےلئے ایک جرات مندانہ حریت پسند انسانی اقدام تھا۔ا±ن افراد کو جن کے دل و دماغ کو غلام بنادیا گیا تھا اور جن پر انسانوں اور پتھر کے بتوں کو بطور حاکم مسلط کردیا گیا تھا، ان انسانوں کو غلامی سے نکال کر عظمتِ انسانی سے روشناس کرایا گیا۔ ذات پات اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑ کر خالقِ کائنات کی حاکمیت کو اس کی زمین پر قائم کیا گیا۔