Site icon Daily Pakistan

یوم شہداءجموں، بدترین المیوں میں سے ایک

گزشتہ روز بدھ چھ نومبرکو مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں نے یوم شہداءجموں منایا،یہ جدوجہد آزادی کشمیر کا نہایت ہی اہم اور ایک خونی دن بھی ہے۔یہ27اکتوبر1947کا دن تھا جب بھارتی افواج جموں و کشمیر میں داخل ہوئیں تو وادی کے حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے اوربگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظربڑی تعداد میں مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔اسی نقل مکانی میں چھ نومبر1947کو جموں کے کئی خوف زدہ مسلم خاندان خواتین اور بچوں سمیت ٹرکوں میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے تو بھارتی فوج اور کئی ہندو انتہا پسندوں ان کا پیچھا کیا اور جو ہاتھ آیا اسے شہید کردیا۔رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس وقت ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوج اور آر ایس ایس جوایک دہشت گرد ہندو تنظیم ہے کی قیادت میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔10اگست 1948 کو دی ٹائمز، لندن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 237,000مسلمانوں کو باقاعدہ طور پر ختم کیا گیا ۔قریباً پانچ لاکھ افراد کو پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں بے گھر ہونے پر مجبور کیا گیا۔نتیجتاً مسلمان جموں میں اقلیت میں تبدیل ہو گئے، جبکہ وہ پہلے کل آبادی کا %61 تھے۔مہاراجہ ہری سنگھ کی شمولیت، آر ایس ایس کی حمایت کےساتھ، اُس خط میں واضح ہے جو نہرو نے 17 اپریل 1949کو والابھ بھائی پٹیل کو لکھا تھا ۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ میں، دیگر چیزوں کےساتھ، جموں صوبے میں زونل ریفرنڈم کےلئے بڑھتی ہوئی ہندو تحریک کا ذکر کیا گیا۔
مہاتما گاندھی نے 25 دسمبر 1947 کو جموں کی صورتحال پر تبصرہ کیا اور ان کے
الفاظ اس کی مجموعہ کلام کے 90ویں جلد میں درج ہیں،کہ جموں کے ہندو اور سکھ اور وہ لوگ جو باہر سے وہاں گئے، مسلمانوں کو قتل کیا۔کشمیر کے مہاراجہ اس سب کےلئے ذمہ دار ہیں جو آج مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے۔یو این سی آئی پی کی 1949کی ویسٹرن کشمیر پر ذیلی کمیٹی کی رپورٹ میں ایک زیلدارکا ذکر ہے جس نے یو این سی آئی پی کو بتایا کہ اکتوبر 1947 میں انہوں نے مہاراجہ کو بھمبر کے دورے کے دوران سنا کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے احکامات دیے جا رہے ہیںاور انہوں نے 2-3افراد کو گولی مارتے ہوئے دیکھا۔اس ضمن میںدنیا بھر میں کشمیری ہر سال جموں کے شہیدوں کا دن مناتے ہیں تاکہ 1947میں ڈوگرا فورسز کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل کیے گئے بے گناہ غیر مسلح شہریوں کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔مشہور سیاسی کارکن اور مصنف، کرشن دیو سیٹھی نے 6 دسمبر 2011کو ایک انٹرویو
کے دوران کہا:مہاراجہ اور ان کی انتظامیہ نے ہری سنگھ کے سری نگر سے آنے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔مہاراجہ نے جموں میں آر ایس ایس کی حمایت اور سرپرستی میں نمایاں کردار ادا کیا۔تاریخی حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس رہنما جیسے بلراج مڈھوکھ، کیدار ناتھ سہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال خورانا 1940کی دہائی میں جموں میں آر ایس ایس کے انچارج کے طور پر مقیم رہے۔ گورنر چیت رام چوپڑا اور DIGپولیس، بخشی ادھائے چند بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔انتظامیہ بھی قتل عام میں شامل ہوئی۔ مسلح ہندو جتھوںکو منظم کیا گیا جو بھمبر تک گئے۔بھارت نے کشمیری عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کی؛ 1948 میں فوجی قوتیں اتار کر وادی میں قبضہ کر کے انکے حق خود ارادیت کو دبایا۔سات دہائیوں کے بعد بھی، کشمیریوں کی مشکلات ختم نہیں ہوئی ہیں۔ کشمیری اب ڈوگرا راج میں نہیں رہتے لیکن ان کی حالت بھارتی غیر قانونی قبضے کے تحت مزید بدتر ہوگئی ہے۔بھارت کی کوششیں کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی لانے کی، جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ 1977 کے اضافی پروٹوکول کے آرٹیکل 85(4)(a) میں کہا گیا ہے کہ قبضہ کرنے والی طاقت کی اپنی شہری آبادی کے کچھ حصوں کو اس علاقے میں منتقل کرنا جو وہ قبضے میں ہے پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔اس وقت، بھارت کشمیر میں تقریباً ایک ملین فوجی تعینات رکھتا ہے، جو اسے دنیا کے سب سے زیادہ عسکریت پسند علاقے میں تبدیل کرتا ہے، جو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔آج بھارت آئی او جے کے میں آبادیاتی تبدیلی کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو ہری سنگھ نے اپنائی تھی۔2019 سے، بھارتی حکومت نے مقامی لوگوں کے جائیداد کے حقوق میں تبدیلی کی ہے، جس سے لوگوں میں وسیع پیمانے پر مشکوکیت پیدا ہوئی ہے۔ کشمیریوں کو خوف ہے کہ نئے قوانین بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی میں تبدیلی لائیں گے۔

Exit mobile version