آج جو فلسطینی مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ مظالم کی چکی میں پیس رہے ہے۔اصل میں یہ دونوں ایک اور دوسرے کے دوست اور حمائیتی اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔حضرت عیسیٰ کو یہودیوں نے اپنی دانست میں قتل کیا۔ اسی لیے موجودہ دور سے پہلے، یہودی اور عیسائی آپس میں صدیوں لڑتے رہے ہیں۔ یہودیوں کو عیسائی ریاستوں میں ظلم جبر کا سامنا کرنا پرتا تھا۔مسلمان ریاستوں میں یہودیوںکو سکھ چین نصیب ہوا تھا۔وہ مسلمانوںکی اسپین میں عرب مسلمان ریاست اورپھر سلطنت عثمانیہ کی تعریفین کرتے تھے۔ تاریخ میں یہودی دانشوروں کی تحریریں اب بھی مل سکتیں ہیں۔مگر یہودیوں کی گھٹی میں سازشیں لکھی ہوئی ہیں۔ جب برطانیہ نے انہیں بلفور معاہدے کے تحت فلسطین میں آباد کیا ۔ تو آباد ہوتے ہی فلسطین کے مسلمانوں کو ان کے گھروںسے نکال کر ان کے وطن فلسطین پر ناجائزقبضہ جما لیا۔فلسطینی ستر سالوں سے یہودیوں سے اپنے وطن واپس لینے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ مگر یہودی ان کے ملک پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور عیسائی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ یہود کو اسلحہ سپلائی کرتے ہیں اقوام متحدہ میں امریکہ فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال کرتا رہتا ہے۔غزہ میں نسل کشی اور مظالم کے خلاف عیسائی حکمرانوں کی عوام ان کے خلاف ہو گئے ہیں ۔اپنے عوام کے خوف سے وہ اب اقوام متحدہ فلسطین کے تسلیم کر رہے ہیں۔اس دور سے قبل یہودی جب یورپ کی عیسائی ریاستوں میں رہتے تھے تو ان کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ اس پر یورپ کی عیسائی ریاستوں سے یہ کئی بار نکالے گئے۔ جس کاہم نے اس کتاب میں اپنے ایک مضمون”یہودی یورپی ملکوں سے کب کب نکالے گئے” میں تفصیل سے ذکر کیاہے۔جرمنی کے عیسائی ہٹلرنے ان کی شازشیوں کی وجہ سے ان کا قتل عام کیا تھا۔ جسے یہودی ہولو کاسٹ کے نام سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ سودی نظام کی وجہ سے عیسائی حکمرانوں کی مالی مدد کرتے رہے ہیں۔ اس لیے آہستہ آہستہ ان میں سرائیت کرتے گئے اوران کی ہمدردیاں حاصل کر لیں۔اب یورپ کے کچھ ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے پر سزا تک منظور کروالی ہے۔ اسلام اور مسلمان دشمنی میں دونوں ایک ہے۔ اگر ان کی تاریخ بیان کی جائے تو حضرت ابراھیم کی نسل کی دوبڑی شاخیں ہیں ۔ ایک حضرت اسماعیل کی شاخ جو عرب میں رہی۔ قریش اور دوسرے قبائل کی تعلق ان ہی سے تھا۔دوسرے حضرت اسحاق جن کی اولاد حضرت یعقوب اور دوسرے ابنیاء ہیں۔چوں کہ حضرت یعقوب کا نام اسرائیل تھا۔ اسی لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئے۔بنی اسرائیل کو مصر میں بڑا اقتدار ملاتھا۔اس کے بعد مصر میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اُٹھی اور نہایت متعصب قطبی خاندان برسرِ اقتدار آ گیا۔ بنی اسرائیل پر مظالم کاسلسلہ شروع ہوا ۔جس کا ذکرحضرت موسیٰ کے دورمیں ملتا ہے۔قرآن شریف میں ہے ”واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گرہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ اس کے لڑکوںکو قتل کرتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ فی الواقعہ وہ مفسد لوگوںمیں سے تھا”(القصص۔٤)پھر اللہ نے حضرت موسیٰ کوپیداکیا۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلائی۔ اللہ نے فرعون کو ان کی فوج کے ساتھ سمندر میں غرق کر دیا۔صرف ظالم فرعون کی لاش باقی رکھی۔ جو اب بھی مصر کے عجائب گھر میں موجود ہے۔
بنی اسرائیل نے دین فطرت اسلام سے نکل کر ایک نے یہودیت کر لی دوسرے نے عیسائیت اختیا ر کرلی ۔ شرک میںمبتلا ہو گئے۔ عیسایوںنے حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنا لیااوریہود میں سے کچھ نے حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا بنا لیا۔اس شرک پر یہودیوں اور عیسایوںسے اللہ ناراض ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ
قرآن میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرماتا ہے” اور یاد رکھو تمھارے رب نے( بنی اسرائیل)کو خبردار کر دیا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا۔ اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تومیری سزا بہت سخت ہے۔(ابراھیم۔٧)۔اللہ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے بھی بنی اسرائیل کو اپنی وفات کے چند روز پہلے اللہ کے سارے احسانات یاد کرائے تھے۔ پھر تورات میں جو احکامات اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل کے لیے آئے تھے د ہرائے۔ پھر نصیحت کی کہ اگر اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائو گے۔ اگرنافرمانی کی تو اس کے سخت سزا دی جائے گی۔یہ تقریربائیبل کتاب استثسناء سے سید مودودی اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں نے نکل کیے ہیں۔قارئین! ہمیں قرآنی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے، کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوںکے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے۔ انکے اپنے عزاہم ہیں جو دنیا میں پورے کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے”یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوںگے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو”(البقراة۔١٢٠)۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک متعصب عیسائی ہے۔ اس نے صدارت سنبھالتے ہی ایک یہودی کو امریکہ کاسفیر بنایا۔ جو کھل کر اسرائیل فلسطین موجودہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ جو یورپی ملک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں ان کو دھمکیاںدیتاہے۔ ٹرمپ کا داماد یہودہ ہے۔ اس نے ”ابراہم اکارڈ میں میں بڑا کام کیا۔ٹرمپ کا وزیرخارجہ ایک متعصب عیسائی ہے۔ مسلمانوں کواپنے ماتھے پر صلیب کا نشان بنا کر فلسطین اسرائیل جنگ کو صلیبی جنگ بنانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ خود کئی بار دیوار گریا پر یہودی طرز کی ٹوپی پہن یہودکے لیے دعائیں مانگتا ہے۔ٹرمپ اسرائیل فلسطین جنگ کا ایک حصہ ہے۔ وہ کہاں اسرائیل فلسطین جنگ میں انصاف کرے گا۔ اس نے اپنے دور میں اسرائیل کو اسلحے کے انباردیے ہیں۔ آج ہی ٹرمپ کا بیان اخبارات میں کا بیان شایع ہوا ہے۔حماس کو دھمکی دیتا ہے”غزہ کا کنٹرول نہ چھوڑا تو حماس کوصفحہ ہستی سے مٹا د دیںگے” ٹرمپ تم خود جلدصفحہ ہستی سے مٹ جائوگے۔ دنیا اورخود امریکہ میں ہر طبقے کے تمھارے غزہ میں بچوں عورتوں بوڑھوں کو ناجائز شہید کرنے اور عام شہریوں کی نسل کشی اور روز روز گرکٹ کی طرح رنگ بدلنے بدظن ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے آنے والے انتخاب جیتنا ٹرمپ کے لیے مشکل ہوگا۔ امریکا ہمیشہ اسرائیل کی اسلحہ سے اور اقوام متحدہ میں ویٹو سے مدد کرتا رہا ہے، اب متعصب ٹرمپ کی وجہ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہو داور عیسائی دونوں فلسطین پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔
یہو داور عیسائی،فلسطین پر قابض ہونا چاہتے ہیں
