Site icon Daily Pakistan

یہ ادب کیا ہے؟

گزشتہ سے پیوستہ
صحافت مفاد پرستوں کی عیش گاہ بن گئی،صحافت کم ایک دھندہ زیادہ بن گئی ہے۔ جس طرح فلم اور ٹی وی انڈسٹری اداکاروں ، اداکارا¶ں کے اسکینڈلز کے باعث خوار اور بدنام ہوگئی ہے اسی طرح صحافت میں بھی نئے نئے میل فی میل رائٹرز کی آمدصحافت کو گرہن ہی لگا گئی ہے کیونکہ فراڈ مافیا نے ان کے ساتھ سکینڈلز بنانے شروع کر دئیے ہیں۔انہیں ابھی قلم کے ہنر سے آشنائی کی ضرورت ہے۔ان صحافتی کاروباری افراد کو پیسے دے کر وہ شائع تو ہو جاتی ہیں لیکن صرف اشاعت سے آپ کا حقیقی قد یا معیار نہیں بڑھتا۔بلکہ اچھا لکھنا سیکھیے۔آپ کی تحریر آپ کے ہنر کی غماز ہے۔اسے کسی استاد کو دکھائیں۔اس کی نوک پلک سنواریں اور پھر کسی کے کندھے کا سہارا لینے کی بجائے خود شائع کرنے کےلئے بھیجیں۔پھر حقیقی خوشی حاصل کریں۔افسوس کہ اب فلم انڈسٹری کی طرح کے لیلیٰ مجنوں صحافت میں بھی جنم لینے لگے ہیں اور ایک عجب نظارہ پیش کر رہے ہیں۔چشم فلک تب سے لے کر اب تک مرد و خواتین کے اشتراک سے بنی اس فلم کے ایسے منظر سامنے آچکے ہیں کہ آنکھیں شرما جائیں، دل و دماغ گھوم جائیں ۔ نئی لکھاری خواتین کو شہرت کا جھانسا دے کر اپنے جال میں پھنسایا جاتا ہے۔پھر مداح سرائی سے جھوٹی محبت کا کھیل رچایا جاتا ہے۔پھر لکھاری خواتین کے ساتھ بے ہودہ گفتگو سے لے کر بے ہودہ حرکات تک پہنچا جاتا ہے۔یہ سانپ ان کی عزتوں کو داغ دار کر رہے ہیں۔جب سے یہ انکشافات میرے علم میں آئے ہیں۔میں ایک رات بھی چین سے سو نہیں پایا۔میرے وطن کی بہنیں جھوٹی شہرت اور نام و نمود کے لیے ان کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ ہم نے فلمسٹار حسینہ کی طرح صحافتی خواتین لکھاریوں کو بھی صحافت میں جی آیاں نوں کہتے محض آنکھوں کا تارا بنادیا ہے۔صاحب حیثیت خواتین کی بھرپور تعریف اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ موجودہ صحافت اس کی واضح مثال ہے ۔ آپ اس کے جس پرت اور حصے کو اٹھا کر دیکھ لیں شرم کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہر حصے، پرت میں عورت ہی عورت کا ذکر و فکر ہے۔ گروپوں، محفلوں، دفتروں اور ہرمقام پر عورت ہی کی بات ہے۔ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ جیسے عورت بغیر یہ صحافتی جہاں کچھ بھی نہیں ہے۔اس صحافتی دنیا میں عورتوں کو شہرت کے لیے دل لبھا دینے والی کہانیاں اور لوریاں سناتے حیوان نما انسان دیکھنے کے لائق ہیں، بے شرمی اور ڈھٹائی کی آخری حد تک عورت کے سحر کا شکار نظر آتے ہیں۔ کسی بھی نئی فی میل رائٹر کو آتے ہی اپنے جلو¶ں سے ”نیڑے آ ظالما وے میں ٹھر گئی آں” کی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔صحافت میں ہر روز صبح سے لے کر شام تک جو جو کچھ ہوتا اور ہو رہا ہے رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے جو بیان کے لائق نہیں ہے۔ میں نے اور متعدد احباب نے ایسے نظارے ”ہم دونوں ہوں اک کمرے میں بند اوربجلی چلی جائے“ جیسے نظارے ضرور دیکھے ہوں گے۔ کچھ نے تو روشنی میں بھی بہت کچھ فلماتے نظارے کسی نہ کسی صورت اندر باہر آتے جاتے ضرور دیکھے ہوں گے۔ یہ بے شرم فلمی کہانی کی طرح بدترین صحافتی داستان ہے۔ کسی بھی صحافتی محاسن پر بیٹھا شخص بڑے آرام سے کسی بھی خواتین لکھاری کو اچانک سے ہی اس مقام پر پہنچانے کی باتیں کرتا ہے جہاں چاہ کر وہاں بیٹھا شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کچھ افراد کو تو چاند تارے توڑ کر لانے کی باتیں تک کرتے سنا ہے۔ کچھ تو اس عالم مدہوشی میں پتہ نہیں کیا کیا تک اتار دیتے ہیں۔ کچھ کے فی میل کو کئے واٹس ایپ میسجز اتنے ”کمال“کے ہوتے ہیں کہ ”عش عش“کرنے کو دل کرتا ہے۔ دل اور اس کو سنبھالا نہ جائے تو پتہ نہیں کیا کر بیٹھے۔ آفس میں کام کرنے، جاب دینے، ڈیوٹی پہ لگانے کے بہانے ملاقات کرکے معاملہ مکمل کرنے تک ہوتا ہے جبکہ ان میں سے اکثر رسائل و اخبارات اے بی سی سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے جن کے ہر صفحے پر نمایاں اپنے ذاتی نمبر ہوتے ہیں جن کے ذریعے نئی نئی خواتین لکھاریوں کو پھنسایا جاتا ہے جبکہ درست قانونی طریقہ یہ کہ ای میل بنا¶، اس پہ ذاتی ای میل سے آرٹیکل بھیجو جبکہ یہاں تو اپنے واٹس اپ نمبروں کے ذریعے کالم مضامین لگانے کےلئے کہا جاتا ہے۔ یادرکھیں! یہ اکثر اخبارات پی ڈی ایف ہوتے ہیں جو نوسر بازوں نے بنائے ہوتے ہیں۔ درست اخبار وہی ہے جو اے بی سی یا کسی قانونی ادارے سے این او سی کے تحت چل رہا ہے اور کسی بھی ادارے کو اجازت نہیں کہ اس کے ایٹریٹر ہر صفحے پر اپنے نمبر دیتے پھریں مگر کچھ میگزین میں ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے اور یہ وہ موصوف ہیں جو اپنے آپ کو سو فیصد قلم قبیلہ سے بتاتے ہیں اور ان کا عالم یہ ہے کہ ان کے گروپ کی لڑکی اگر کوئی دوسرا اپنے گروپ میں شامل کرلے تو دوسرے کے نام واٹس ایپ میسج کرکے گلہ کرتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ ہمارا دل ویران کرکے اپنا گھر بسا لیا، میں نے تو اجازت لے کرشامل کیا تھا، تم نے بن اجازت ہی اسے چرالیا، یہ صریحاً زیادتی اور صحافتی بد دیانتی کا کھلم کھلا ارتکاب ہے۔ بس آخر میں لکھی ان چند سطور میں ہی سمایا ہوا ہے اس سے باہر نکلتا ہی نہیں ہے اور کسی طرف راستہ جاتا نہیں ہے۔ یہ ادب کیا ہے؟ہاں مشہور اخبارات اور میگزین میں بھی ایسے شہرت کے پجاری ہیں جو لڑکیوں کےلئے دل و جان وا کیے بیٹھے ہیں۔پیسے اور تعلقات ساتھ ساتھ چلاتے ہیں۔اخبارات کے اصل مالکان کو ہوا نہیں لگنے دیتے کہ کس ہوس و نشاط کا بازار گرم کر رکھا ہے۔یا واہ واہ کیے جا،یا گاتا جا،یا ہائے ہائے کیے جا ، یا دل کی بھڑاس نکالے جا،یا محبوب کے جسم کے خدوخال کو بیان کیے جا۔آج صحافتی وادبی کرتا دھرتا¶ں کے نزدیک یہی انتہاءہے اور یہی فناءہے۔

Exit mobile version