Site icon Daily Pakistan

1962 میں خوش آمدید

ہندوستان سے مشرق وسطیٰ اور وہاں سے یورپ جانے والے مجوزہ اکنامک کوریڈور کے تصوراتی منصوبے کو حالیہ جی 20 کانفرنس کی بہت بڑی فتح ، نمایاں ترین کامیابی اور خطے کے مستقبل پر اثرانداز ہونے والا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ پاکستان کو جی 20سربراہی اجلاس کے اس منصوبے کو 1962میں خوش آمدیدکے سلوگن کے ساتھ کھلے دل سے مبارکباد کا عنوان بنانا چاہیئے۔تاکہ نئی بتیسی سمیت کانفرنس میں شرکت کرنے والے امریکی صدر جو بائیڈن، سعودی ولی عہد بن سلیمان اور دنیا بھر میں جہاں بھی چار لوگ اکٹھے کھڑے نظر آئیں تو ان میں پانچویں بھائی طیب اردوغان صدر جمہوریہ ترکیہ سمیت تمام شرکا کو اندازہ ہو جائے کہ انہوں نے جس تجارتی شاہراہ کا خواب 2023 میں دیکھا ہے ،وہ پاکستان ،ایران اور ترکی 1962 میں نہ صرف دیکھ چکے ہیں ،بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا تھا وہ تو دو واقعات ایسے رونما ہوئے کہ یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا۔ پہلا تو انقلاب ایران کہ جس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا ،اور دوسرا برا ہو امریکہ کا کہ اسے 1979 میں افغانستان کےساتھ جنگ کرنے کا موقع مل گیا اور اس سے بھی زیادہ برا ہو ہمارے اس وقت کے فیصلہ سازوں کا جنہوں نے امریکی اسلحے کو یہاں کے ضرورت مند اور فرقہ پرست ملاو¿ں کی مدد سے پاکستانی نوجوانوں کے جسم فراہم کرنے کا مناسب معاوضے پر بندوبست کیا تھا۔ اس وقت اگر ہم ایک پرائی جنگ کا ایندھن نہ بنتے تو آج دنیا کے باعزت اور آبرومند ملک ہوتے۔بہرحال اب ہندوستان کی طرف سے کچھ عرصے تک اس منصوبے کے آگے پیچھے ڈھولکی بجائی جاتی رہے گی۔اس کوریڈور نے امارات کے جاہ پرست حکمرانوں اور سعودی عرب کی حقیقت اور اصلیت کی پردہ داری کےساتھ ساتھ 1923 میں لکھے اقبال کے اس مصرع کی تشریح بھی کر دی ہے کہ ؛
” حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے“۔
سعودی ولی عہد بن سلیمان دس ستمبر کو شاید پاکستان آنے والے تھے ، یہاں منہ دھونے اورپالش کی تیاریاں مکمل تھیں کہ اچانک یہ دورہ موخر کر دیا گیا اور بن سلیمان ہندوستان پہنچ گئے۔ایک خودمختار ملک کے طور پر انہیں اپنے فیصلے کرنے کا پورا استحقاق حاصل ہے لیکن بہرحال انہیں دوسرے ملکوں کی سفارتی آبرو کا خیال ضرور رکھنا چاہیئے تھا۔پاکستان سعودی عرب کے مشکل وقتوں کا ساتھی اور راز دار ہے۔لیکن میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ نودولتیوں کی نفسیات سیر چشم اقوام سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس شعر کے دوسرے مصرعے،:
”جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے“۔کی تازہ تعبیر کی طرف بھی اشارہ اس کانفرنس نے کر دیا ہے ، کہ جمہوریہ ترکیہ اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے تل ابیب سے لے کر دلی اور ماسکو سے لے کر واشنگٹن تک ہر ہجوم کا حصہ بن جانے کے لیے تیار رہتی ہے ۔اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ہمیں پہلے دن سے ملت اسلامیہ کی افیون کی چٹکیوں پر لگا کر ہمارے ملازم حکمرانوں نے ہر دہائی میں اپنے دام تو کھرے کر لیے ،پر پاکستان کو غلام بے دام بنا کر مستقل طور پر ایک زیردام ریاست میں تبدیل کر دیا گیا۔مسلمان ملکوں میں ایک جمہوریہ ترکیہ ہی ڈھنگ کا ملک نظر آتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر 1962 میں پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین قائم ہونے والی تنظیم آر سی ڈی کو انقلاب ایران اور پاکستان کی طرف سے سال 1979 میں غیر موثر نہ کر دیا جاتا، اگر ہم علاقائی تعاون تنظیم کے مقاصد کو آگے بڑھاتے رہتے اور ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتے پاکستان کو ہاتھ پیر باندھ کر افغانستان میں امریکی جنگ کا ایندھن نہ بنا دیتے ،تو آج ایشیااور یورپ کے درمیان آر سی ڈی کا واحد زمینی راستہ تجارت کا مرکز بن چکا ہوتا ،اس کے سی پیک روٹ کے ساتھ منسلک ہونے سے خطے کے متصل ممالک بھی اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے۔آج پاکستان بڑی ثابت قدمی سے اسی جگہ پر کھڑا ہے ، جہاں سے کبھی سفر شروع کیا تھا۔ہم اپنے آس پڑوس کے تمام ملکوں سے پیچھے نظر آتے ہیں ۔ آ جا کے جنگوں کا ستایا ہوا ایک ملک افغانستان تھا کہ ہم جسکے مقابلے میں زیادہ پرامن اور خوشحال ملک نظر آتے تھے ۔اب ہماری ڈالر پرستی نے اس میدان میں بھی ہمیں افغانستان سے پیچھے لا کھڑا کیا ہے۔ہمارے ملک میں تجارت مشکل اور اسمگلنگ آسان ہے۔ہمارے حکمرانوں کا انتخاب اور ترجیحات کا تعین کرنے والے نفوس پچیس کروڑ پاکستانیوں کے مستقبل کی بجائے اپنے فوری مفادات کے حصول اور تحفظ سے آگے سوچنے کی تربیت ہی نہیں رکھتے ۔ ہمارے لوگوں کی سب سے بڑی طاقت تعلیم دوستی تھی۔بڑی منظم کوشش سے پاکستان میں پہلے اعلیٰ تعلیم کا بیڑہ غرق کیا گیا ،اب پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن بھی اللہ کے حوالے ہے ۔ پون صدی سے پاکستانیوں کو مہنگائی کے کھیل میں الجھا کر رکھا گیا ہے۔ہر ادارہ زوال پذیر ہے ،صرف چنیدہ افراد معاشی طور پر ہندوستان کے چندریان تھری نامی راکٹ سے بھی چار گنا رفتار سے ترقی کر رہے ہیں ،چلیں مل کر شکر ادا کرتے ہیں کہ پاکستان میں کسی نے تو راکٹ چندریان تھری کی رفتار کو مات کیا ۔جی 20 سربراہی اجلاس نے ایک طرف تو یہ پیغام دیا ہے کہ دنیا ہندوستان پر بطور ایک ترقی پذیر معیشت اور ایک بظاہر جمہوری ریاست کے اعتبار کرتی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اسے اپنے ہم پلہ خیال کرتی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ؛ ہماری مسلط کردہ خارجہ پالیسی نے ہمیں برادر ملکوں کا پلے داربنا کر رکھ دیا ہے۔جی 20کے شپنگ اور ریل منصوبے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے ترسے ہوئے عرب ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے باہم منسلک کیاجائے گا ۔جس کے بعد یہ ممالک سمندری راستے سے انڈیا کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ دوسری طرف اس نیٹ ورک کو یورپ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ یہ دراصل ایک شیخ چلی منصوبہ معلوم ہو رہا ہے۔اس پراجیکٹ کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ بنایا جانا باقی ہے ،اور اس کے لیے درکار وسائل کی فراہمی کی تفصیل بھی ابھی طے کی جانی ہے۔قیاس چاہتا ہے کہ یہاں بھی امارات اور سعودی عرب کو جدت کے خواب دکھا کر نچوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔پاستان میں اگر کوئی صاحب علم اور ہوش مند شخص ذمہ دارہو ،تو اسے چاہیے کہ جی 20 کے شپنگ اینڈ ریل منصوبے میں شامل عرب ممالک کو مبارک باد کا ایک کارڈ تیار کر کے بھیجیں جس پر 1962 میں خوش آمدیدجلی حروف میں لکھا ہوا ہو۔ اس طرح کے ہوشربا منصوبے بنتے رہتے ہیں ، تکمیل تک پہنچ بھی جائیں تو کسی کو کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔اس سی پیک روٹ اور اس سے اٹھاون سال پہلے کے آر سی ڈی روڈ کا جواب دینے یا ٹھٹھا اڑانے کی ایک احمقانہ سی کوشش بھی خیال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور چین کے لیے بھی اسے بیداری کا ایک پیغام سمجھنا چاہئے ۔ چین ایک تجارتی طاقت ہے ،اسے سی پیک منصوبے میں پاکستان کی افرادی قوت اور پاکستانی عوام اور انڈسٹری کے مفادات کو زیادہ قابل قبول سہولتیں دینی چاہیں۔اور یہی وہ وقت ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی خطے میں ایران ، افغانستان ، تمام وسطی ایشیائی ممالک اور روس کے ساتھ اپنے قابل اعتبار اور وفا شعار ہونے کے تاثر کو پختہ تر کرنے کی بھی کوشش کرے۔ہم امریکہ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے محض اپنے بعض لوگوں کی” حب الڈالری“ کے باعث کافی نقصان اٹھا چکے ہیں ۔اب کچھ عرصہ اس ریاست کے معصوم شہریوں کے مفادات سے محبت کر کے بھی دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ،کیا خیال ہے بھائی جان !

Exit mobile version