سپریم کورٹ نے 63اے پر حکومت کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار کرنے کا فیصلہ سنا دیا ۔ اس فیصلہ کے بہت ہی اہم اور گہرے اثرات پاکستانی سیاست پر ہونگے ۔ امریکہ کینیڈا برطانیہ یا مستحکم جمہوری معاشروں کی امثال دینے والے ولا حضرات کو اپنی لنگڑی لولی موروثی سیاست کو بھی دیکھنا چاہیے ۔
اس فیصلہ سے اسمبلی میں آزاد ارکان کو خرید کر اور دھمکا کر اپنی مرضی کی قانون سازی ہو سکتی ہے اور اسی بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کرے گی ۔ جیسا کہ آئینی عدالتوں کے حوالہ سے یہی خدشہ تھا کہ انہیں اس مقصد کیلیے بنایا جانا مقصود ہے کہ ان کے ذریعہ من مانی آئین کی تشریح کی جا سکے ۔شاید اب اس کی ضرورت نہ پڑے ۔ حالانکہ آئینی معاملات کی تشریح یا گتھی سلجھانے کیلیےنچلی سطح سے لیکر سپریم کورٹ تک علیحدہ بینچ مختص کیے جا سکتے ہیں اور ان میں حاضر ججز کی تعیناتی کی جا سکتی ہے ۔ لگتا ایسے ہی ہے کہ اس کا عبوری خاکہ بنا کر اس میں من پسند تعیناتیاں بھی کر لی گئی ہیں ۔
عدالت نے ایک بات عجیب سی کہی کہ جج کون ہوتا ہے ؟ قاضی یا جج سب سے سپریم طاقت ہوتی ہے اور وہی اصل انصاف سے فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے ۔ اگر جج کو ہی معلوم نہیں کہ جج کون ہے تو ایسے جج کی ججمنٹ کیا ہو گی ۔ جب آپ کو پتہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے تو آپ ہارس ٹریڈنگ کو تقویت دینے والا دروازہ کیوں کھولتے ہیں ۔ اس وقت کے سیاسی ماحول اور حالات میں بھی جبکہ یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ اسے استعمال کیا جانا ہے تو آپ نے عدلیہ کا سیاسی استعمال میں اپنا کردار ادا کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا لیا ۔ ممکن ہے اسی بنیاد پر ججوں کی عمر میں اضافہ کی ترمیم ممکن بنائی جائے اور بقول شخصے اگر عمر میں اضافہ سے زبردستی کسی کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے تو مجبوری ہے ۔ ابھی حال ہی میں ججز نے سپریم عدالت سے استعفا دیا ہے انہیں بھی مجبور کیا جا رہا تھا ۔
جمہوری معاشروں میں جہاں جمہوری
اقدار پختہ ہے وہاں پر یقینا یہ درست فیصلہ ہے ۔ سپریم کورٹ نے دوران سماعت اس کی نشاندھی بھی کی کہ جب ڈکٹیٹر کا ڈنڈا دیکھا تو خاموش اور جب ڈنڈا ہٹا تو چلانے والے سیاستدان جمہوری روایات کے آمین بن کر آ جاتے ہیں ۔ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ سیاسی پارٹی جمہوریت کی بنیادی اکائی ہے ۔ یہ عوام کی آواز اور عوامی نمائیندگی سے معاشرتی فلاح کا کام سرانجام دیتی ہے ۔ سیاسی پارٹی سے پارلیمنٹ بنتی اور پارلیمانی لیڈر بنتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے ممبر اپنا لیڈر منتخب کرتے ہیں ۔وہ ایک جماعت ہوتے اور ایک سیاسی لیڈر کے فیصلہ کے پابند بھی ہوتے ہیں ۔ اگر ایک جماعت کا کوئی بھی ممبر جس نے عوام سے کسی پارٹی کے ٹکٹ اور نعرہ پر کامیابی حاصل کی ہے تو وہ اس کے منشور سے متفق تھا تو اس نے اس جماعت میں شمولیت کی ۔ اگر بعد میں جب اسے محسوس ہوا کہ پارٹی منشور سے ہٹ گئی ہے یا اس پارٹی میں رہ کر وہ عوامی توقعات اور ضروریات پوری نہیں کر پا رہا تو اسے اس پارٹی سے اس کی دی ہوئی سیٹ سے مستعفی ہو جانا چاہیے ۔یہ تو ایک عام سا اصول ہے ۔ اگر وہ ممبر پارٹی کے ووٹ اس کی سیٹ پر بیٹھا بھی ہے اور اس کا ضمیر مطمئن بھی نہیں تو ایسے میں اس فرد کی امانت اور دیانت پر سوال بنتا ہے ۔ لوگوں کے ووٹ کی امانت اور ان سے کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کی دیانت ۔ صاحب کو کروڑوں کی چمک یا ڈنڈے سے جھکا دینے والی ضمیر کی ملامت اگر پارٹی کے خلاف ووٹ پر مجبور کرے تو یہ غلط ہو گا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اول تو فاضل ممبر کا اس سیٹ پر کوئی ذاتی حق نہیں جسے وہ اپنی مرضی یا منشا سے استعمال کرے جیسا کہ آئین کے تحت دئیے بنیادی حقوق کا تقاضا ہے ۔ وہ شخصی آزادی ہے اور یہ عوامی نمائندگی ہے ۔ ایک شخص لوگوں سے مذہب کے نام پر ووٹ لے اور ووٹ سیکولر ازم کو دے یہ بدیانتی ہے ۔ اس بد دیانتی پر وہ نااہل ہوتا ہے کیونکہ بددیانت شخص اسمبلی کا ممبر نہیں ہو سکتا ۔ پارٹی پالیسی سے جس بھی ممبر کو اختلاف ہو اور اسے اپنی جمہوری خدمات پر یقین ہو کہ وہ کوئی ہمبا نہیں جسے کسی پارٹی ٹکٹ سے عوام خدمت سے روکا جا سکتا ہے وہ مستعفی ہو ۔ اس کا جس پارٹی کی پالیسی سے اتفاق ہو اس میں شامل ہو کر اس کو مضبوط کرے ۔ یہ تو اخلاقی طور پر بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ کڑکڑ ہمارے سر اور انڈے ہمسائے کے گھر ۔
پاکستان کے جمہوریت کے چمپئن آج ایک جماعت میں تو کل ان کا ضمیر انہیں ملامت کر کے دوسری جماعت میں لے جاتا ہے ۔ انھیں ساری زندگی یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کا ضمیر انہیں ایک جگہ کیوں نہیں بیٹھنے دیتا ۔ ایک سینٹر کے علاوہ اور کوئی پریس کانفرنسیں نہیں کرتا ۔ اب یہ اس بات کی غمازی ہے یا خدشہ کہ وہ یقینا کسی پے رول پر ہے ۔موجودہ حالات میں تحمل بردباری کی بجائے شعلہ بیانی کرنے والے اس ملک یا معاشرہ کے محسن نہیں بلکہ وہ پا گوشت کیلئے بھینس ذبح کرنے والے انتہائی نیچ لوگ ہیں ۔