Site icon Daily Pakistan

ایف بی آر کی کارکردگی میں اضافے کیلئے حکومتی اقدامات

وفاقی بورڈ آف ریونیوپاکستان کا وہ ادارہ ہے جو ملک کے مالیاتی استحکام میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ٹیکس وصولی کو یقینی بنانا اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں اور ان اقدامات کے اثرات اب نمایاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق 2024 اور 2025 کے دوران متعارف کروائی گئی اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 10.6 سے 11.3 فیصد کے درمیان رہا، جو گزشتہ برسوں کی نسبت بہتر اور امید افزا ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی سطح پر حوصلہ افزا ہے بلکہ عالمی ادارے بھی اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔اعداد و شمار اس بہتری کی عملی تصویر واضح کرتے ہیں۔ مالی سال 202324 میں پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب تقریبا 9 فیصد رہا تھا جو کئی دہائیوں سے ایک بڑا چیلنج سمجھا جا رہا تھا۔ اس سے پچھلے برسوں میں یہ شرح 8.5 فیصد کے قریب رہی، مگر 202425 میں حکومت اور ایف بی آر کے اقدامات کے نتیجے میں یہ تناسب بڑھ کر 10.6 فیصد تک پہنچ گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تسلسل جاری رہا تو آنے والے برسوں میں یہ تناسب 13 فیصد سے اوپر لے جانا ممکن ہوگا جو ترقی پذیر معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ایف بی آر نے ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر بھی خاص توجہ دی۔ اس سلسلے میں بڑی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب مالی سال 202425میں 2,403,831 نئے ٹیکس دہندگان کو رجسٹر کیا گیا اور تقریبا 2,452,090 نئے ریٹرنز جمع ہوئے۔ نئے ٹیکس دہندگان سے حاصل ہونے والی آمدنی تقریبا 1.73 ارب روپے رہی جو پالیسی اصلاحات کے مثر ہونے کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی تعداد بھی بڑھ کر 12.5 ملین سے تجاوز کر گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ معیشت کا بڑا حصہ اب بتدریج رسمی دائرے میں داخل ہو رہا ہے۔ایف بی آر کی ایک اور نمایاں کامیابی Active Taxpayers List میں اضافہ ہے۔ مارچ 2025 تک فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد 6.67 ملین تک پہنچ چکی تھی، جو گزشتہ برس کے 5.34 ملین کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ اس ترقی کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اور کاروبار اب باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن جمع کروا رہے ہیں، جس سے ریاست کے مالیاتی وسائل میں پائیدار اضافہ ممکن ہوا ہے۔ادارے کی اصلاحات کے ضمن میں سب سے اہم قدم ایف بی آر کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلیاں تھیں۔ ماضی میں ٹیکس دہندگان کو شکایات رہتی تھیں کہ ان کے کیسز طویل عرصے تک حل نہیں ہوتے اور تنازعات کے باعث معاملات کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے تیز رفتار تنازعہ نمٹانے کے نظام کو متعارف کرایا اور اس کے ساتھ ساتھ خودکار آڈٹ اور شفاف رپورٹنگ کے نظام پر زور دیا۔ اس عمل سے نہ صرف ٹیکس دہندگان کا اعتماد بڑھا بلکہ ایف بی آر کی مجموعی ساکھ میں بھی بہتری آئی۔ ڈیجیٹلائزیشن ایف بی آر کی اصلاحات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ای انوائسنگ اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹمز کو مختلف شعبوں میں نافذ کرنے سے کاروباری ٹرانزیکشنز کو شفاف بنایا گیا۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت بڑی صنعتوں اور درآمدی اشیا کی نگرانی ممکن ہوئی اور ٹیکس چوری کے راستے محدود ہوئے۔ مثال کے طور پر سگریٹ اور مشروبات کی صنعت میں ٹریک اینڈ ٹریس کے نظام نے حکومت کو کروڑوں روپے کے اضافی ریونیو کی سہولت دی۔ اسی طرح بینکوں، کسٹمز اور تجارتی اداروں کے ڈیٹا کو مربوط کرنے سے ٹیکس دہندگان کی اصل آمدنی کا اندازہ لگانا آسان ہو گیا، جس سے ٹیکس نیٹ وسیع ہوا۔ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے حکومت نے ٹیکس چھوٹ اور رعایتوں کا ازسر نو جائزہ لیا۔ کئی دہائیوں سے بے شمار شعبے استثنا یا رعایتوں کی وجہ سے ٹیکس نظام سے باہر تھے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خسارہ پیدا ہوتا رہا۔ نئی پالیسیوں کے مطابق بہت سی غیر ضروری چھوٹ ختم کر دی گئی ہیں اور صرف ان شعبوں کو رعایت دی جا رہی ہے جو براہ راست عوامی فائدے یا برآمدات میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ عمل مشکل ضرور ہے لیکن اس سے طویل مدت میں ملک کے مالیاتی ڈھانچے کو استحکام ملے گا۔بجٹ اصلاحات میں بھی ایف بی آر اور حکومت نے اہم کردار ادا کیا۔ مالی سال 202425 اور 202526 کے بجٹوں میں نئے ٹیکس اقدامات شامل کیے گئے جن میں ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ردوبدل اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز پر لیویز شامل ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں فوری طور پر ریونیو میں اضافہ ہوا، لیکن ساتھ ہی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا پڑا کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ حد سے زیادہ نہ بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ پالیسی سازوں کے مطابق مستقبل میں ٹیکس پالیسیوں کو زیادہ متوازن اور عوام دوست بنانے پر زور دیا جائے گا۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس دونوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ صرف درآمدات پر ہی نہیں بلکہ مقامی سطح پر بھی ٹیکس وصولی میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسی عالمی اداروں نے پاکستان کے ان اقدامات کو مثبت قرار دیا ہے۔ تاہم ان اداروں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ پاکستان کو اپنے ٹیکس بیس کو مزید بڑھانے اور غیر رسمی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی وہ بڑا خلا ہے جو اب بھی نظام کو محدود کر رہا ہے۔چیلنجز اپنی جگہ باقی ہیں۔ غیر رسمی معیشت کا حجم اب بھی بہت بڑا ہے اور لاکھوں افراد اور کاروبار ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ اگرچہ ڈیجیٹل اقدامات اور ڈیٹا شیئرنگ سے بہتری آئی ہے لیکن اس سمت میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ عوام کے اعتماد کو بحال کرنا بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ لوگ اس وقت تک باقاعدگی سے ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک انہیں یقین نہ ہو کہ ان کے پیسے شفاف طریقے سے استعمال ہوں گے اور انہیں صحت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں کی شکل میں واپس ملیں گے۔ آسان اور جدید سہولتوں کی فراہمی بھی ایف بی آر کے لیے ضروری ہے۔ آن لائن پورٹل کو مزید فعال بنانا، تیز رفتار ریفنڈ سسٹم فراہم کرنا اور تنازعات کو جلد از جلد نمٹانا وہ اقدامات ہیں جن سے ٹیکس دہندگان کا اعتماد بڑھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم بھی چلانا ہوگی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس نظام کا حصہ بنیں۔ان تمام اقدامات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایف بی آر نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نمایاں اقدامات کیے ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اگر یہ تسلسل جاری رہا اور پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا گیا تو پاکستان کے لیے اپنے ٹیکس ٹو جی ڈی پی اہداف حاصل کرنا ممکن ہوگا۔ یہ صرف مالیاتی استحکام کی ضمانت نہیں بلکہ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور دیگر عوامی خدمات کے لیے وسائل میں اضافے کا ذریعہ بھی ہوگا۔ ایف بی آر کی کارکردگی میں اضافہ دراصل ملک کے روشن اور مستحکم مستقبل کی ضمانت ہے۔

Exit mobile version