Site icon Daily Pakistan

حب افغان نہیں بلکہ بغض پاکستان

افغانستان کے وزیرِ صنعت و تجارت نورالدین عزیز سرکاری مذاکرات کے لیے بھارت پہنچ چکے۔بظاہر یہ دورہ دو طرفہ تجارت کے فروغ، اور افغان کاروباری طبقے کے لیے متبادل تجارتی راستوں کی تلاش پر مرکوز ہے۔ یہ دورہ اکتوبر میں افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے بھارت کے غیر معمولی آٹھ روزہ سفر کے بعد ہو رہا ہے۔ متقی کو یہ دورہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی پابندیوں میں عارضی چھوٹ دی گئی تھی، حالانکہ بھارت نے ابھی تک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔طالبان کا مودی سرکار کے لئے درحقیقت یہ دورہ ملا متقی کے نئی دہلی کے دورے کی پیروی ہے جسے پاکستانی پوسٹوں پر افغان فورسز اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے مشترکہ سرحدی حملوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ طالبان کا بھارت کے لئے التفات دیکھ کر یہ مصرعہ یاد آتا ہے کہ "پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا”۔ اس دورے کے حقیقی مقاصد واضح ہیں کہ طالبان تجارت کی آڑ میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کو ترجیح دے رہے ہیں۔چند روز قبل طالبان کے سربراہ عبدالغنی برادر نے افغان تاجروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ چند مہینوں میں پاکستان کے ساتھ کاروبار ختم کر دیں۔ انہوں نے مزید اعلان کیا کہ "نئے تجارتی راستے تلاش کیے جا رہے ہیں”۔ اگر صحیح تناظر میں دیکھا جائے تو چند باتیں بہت واضح ہیں:-اول: طالبان کی حکومت پاکستان کی طرف سے مسلط کردہ سرحد کی بندش کی تکلیف محسوس کررہی ہے۔دوم: تجارتی دبا کے باوجود طالبان تجارت پر دہشت گردی کو ترجیح دیتے ہیں۔ آسان الفاظ میں، افغان عبوری حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان کے لوگوں سے زیادہ پسند کرتی ہے۔سوم: بھارت کے ساتھ نئے سرے سے ہم آہنگی پاکستان مخالف ہتھکنڈوں، مشترکہ دہشت گردی کی سرپرستی کی سازشوں، تذویراتی دھوکہ دہی اور روایتی موقف سے واضح انحراف پر مبنی ہے۔اسلام کا نقاب طالبان کے چہرے سے گر چکا ہے۔ بیس سال سے زیادہ طالبان کے پروپیگنڈے نے ہندوستان کو ایک ایسی ہندو "کافر” ریاست کے طور پراجاگر کیا جو کابل میں "اسلام مخالف” قوتوں کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ اب وہی نام نہاد اسلامی امارات اپنے وزیر خارجہ اور وزیر تجارت کو نئی دہلی بھیج رہی ہے، اور ایسی کافر ریاست کو منڈیوں، ڈیموں اور سرمایہ کاری کے لیے پکاراجارہا ہے۔ طالبان کا بامیان بدھا کے مجسمے گرانے سے نئی دہلی تک کا سفر بہت شرمناک ہے۔ طالبان نے بامیان کے مجسموں کو "غیر اسلامی بتوں” اور "بدھ ہندو تہذیب” کے خلاف جنگ کا استعمارہ بنایا تھا۔ آج کابل کی غیر منتخب حکومت اسی ہندوستان کے ساتھ پینگیں بڑھارہی ہے، جو خود کو بدھ بت پرستی اور ہندو ورثے کا محافظ قرار دیتا ہے۔ماضی میں، طالبان نے کابل حکومتوں کو "بھارت کی کٹھ پتلی” کے طور پر ہدف بنایا تھا اور ہندوستانی قونصل خانوں کو افغانستان اور پاکستان کے خلاف را کے دہشت گردی کے مرکز قرار دیاتھا۔ اب، وہی امارت ہندوستانی گندم، ہندوستانی تعمیر نو کے پیسے، ہندوستانی بندرگاہوں اور تجارتی راہداریوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے، سادہ لفظوں میں "سابق دشمن” سے افغان معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عرضیاں پیش کرنا انتہائی پست منافقانہ طرز عمل ہے۔ماضی میں طالبان مسلم بھائی چارے، اسلامی یکجہتی اور پاکستان کے ساتھ "تاریخی تعلقات” کے بارے میں مسلسل بات کرتے ہے، لیکن ان کے حالیہ اقدامات نے ایسے منافقانہ پہلو کو بے نقاب کر دیا ہے جو تاریک اور بدصورت ہے۔ ایک بار جب پاکستان کے ساتھ تعلقات کالعدم دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی، سرحدوں اور پناہ گزینوں پر کشیدہ ہو گئے، تو وہ اپنے مسلم پڑوسی کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بجائے ایک غیر مسلم طاقت کے ساتھ گٹھ جوڑ کے لیے دوڑ پڑے۔ تلخ سچائی ناقابل تردید ہے کہ طالبان ایک مسلم ریاست کے بنیادی سیکورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ تجارتی اور مالیاتی مسائل کی آڑ میں ہندو اکثریتی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔طالبان روایتی طور پر مغربی معاشی غلامی، سود پر مبنی نظام اور کفر کے اداروں کو عہد حاضرکے فتنے بنا کر عوامی حمایت حاصل کرتے تھے۔ سابقہ اسلام نواز مقبول عام نعروں کے برعکس آ ج وہ ہندوستان کو خوش کرنے میں مشغول ہیں، جو مغربی سرمائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔آج ہندوستان کے توسط سے طالبان عالم مغرب کے کفر یہ اداروں سے مالی فائدے بٹورنے کے لئے تگ ودو کر رہے ہیں۔طالبان نے شریعت کی غلط منطق کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق غضب کئے ہوئے ہیں۔ ان کا رویہ افغان عوام کے ساتھ بے لچک اور بے رحمانہ ہے – لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے کام، میڈیا کی آزادی پر کوئی لچک نہیں دکھارہے – یہ سب کچھ "خالص شریعت” کے نام پر کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود خارجہ پالیسی پر وہ انتہائی لچک دکھاتے ہیں، جو بھی نقد رقم، راہداری اور سفارتی تعاون کی پیشکش کرتا ہے، اس کے ساتھ تیزی سے تعلقات استوار کرتے ہوئے یہ بھی نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ وہی ریاستیں ہیں جنہیں وہ اسلام مخالف قرار دیتے تھے۔اس لچک نے سوچی سمجھی منافقت کی سرخ لکیر کو عبور کر لیا ہے۔ طالبان سے منسلک علما اور جنگجوں نے تاریخی طور پر ” مقبو ضہ کشمیر میں جہاد” کو سراہا اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم کی مذمت کی۔ دہلی کے ہائی پروفائل دوروں کے دوران، اب طالبان مسئلہ کشمیر، سی اے اے، مسلم دشمنی پر شرمناک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ آج مسلمانوں کے بجائے ان کی ترجیح تجارتی راستے اور سفارتی تشخص ہے۔طالبان اب اسلام، تحریک آزادی اور شریعت سے متاثر موقف کے علمبردار نہیں رہے۔ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر مسترد کرنا ایک اہم مثال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان اب ہندوستانی بیانیہ کو اپنے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اور ہندوستان جیسے جارح ہندوتوا کے زیر اثر ملک کو خوش کرنے کے لیے پڑوسی مسلم ریاست کے خلاف فیصلے کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے سنجیدہ مزاج افغان حلقے بھارت نواز طالبان عناصر سے شاکی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار پر طالبان کی معنی خیز خاموشی پر سوال اٹھانا شروع کردیئے ہیں جن میں مساجد کے انہدام، زبردستی تبدیلی مذہب، حجاب پر پابندی اور ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے دردناک قتل جیسے المناک واقعات شامل ہیں۔افغان وقار کے زبانی دعووں کے برعکس طالبان کی حکومت حقیر مفادات کے لیے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔

Exit mobile version