Site icon Daily Pakistan

لداخ میں آئینی و سیاسی حقوق کےلئے مظاہرے

مقبوضہ جموں و کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح لداخ میں عوام کی جانب سے ریاستی حیثیت کی عدم بحالی پر مودی سرکار کے احتجاج شدت اختیار کردیا۔ لداخ کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئی اور بی جے پی حکومت سے نالاں لداخ کی عوام نے لہیہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ 2019 میں بی جے پی حکومت کی جانب سے آئین کے چھٹے شیڈول کے مطابق لداخ کی ریاستی حیثیت کی بحالی اور آئینی تحفظ کا جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا تاہم مودی سرکار نے اقتدار میں آنے کے بعد لداخ کے رہائشیوں کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا۔لداخ کے مکینوں نے بنیادی حقوق کی محرومی سے تنگ آ کر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیا، لہیہہ ایپکس باڈی اور اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس نے لداخ میں "لہیہہ چلو” کے نام سے احتجاجی کال دی، لداخ کی عوام نے انتہائی سرد موسم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے آئینی حقوق کے لیے بڑی تعداد میں مارچ میں شرکت کی۔لداخ کی عوام ہزاروں کی تعداد میں اپنے حقوق کے لیے نکلی جبکہ مظاہرین نے بی جے پی مخالف نعرے اور اپنے حقوق کے لیے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔لہیہہ میں کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں عوام نے مطالبہ کیا کہ لداخ کی ریاستی حیثیت کی بحالی، مقامی لوگوں کے لیے ملازمتوں کی فراہمی جبکہ لہیہہ اور کارگل کو پارلیمانی نشستوں میں شامل کیا جائے، منٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد لداخ ریاستی حیثیت کھو چکا ہے جبکہ لداخ کی عوام آئینی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لداخ بنیادی طور پر ایک متنازع خطہ ہے جس پر چین اور بھارت کا کئی مرتبہ ٹکراو¿ بھی ہو چکا ہے، اقتدار کی ہوس میں لداخ میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہاں مودی سرکار نے لداخ کو خود مختار ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا تاہم بی جے پی حکومت کا لداخ کے مسائل پر غفلت اور مجرمانہ خاموشی تشویشناک ہے۔آئینی تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے لداخ میں جاری احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔کرگل ڈیموکریٹک الائنس نے کرگل میں 20 مارچ کو نصف دن کی ہڑتال اور احتجاجی مارچ کی منصوبہ بندی کا اعلان کیا تھا۔ ان کے کلیدی مطالبات میں لداخ کو ریاست کا درجہ دینا اور چھٹویں شیڈول کا نفاذ شامل ہیں۔ سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ ماہر تعلیم اور سماجی اصلاح کار سونم وانگچک بھی ان کی حمایت میں احتجاج میں شامل ہیں جو پچھلے چند دنوں سے لہیہہ میں اپنے مقاصد کے لیے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ وانگچوک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر باقاعدہ ویڈیو پیغامات نشر کررہے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ لداخ کے نازک ماحول کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعے، وانگچک بی جے پی قیادت کو وہ وعدے بھی یاد دلاتے رہے ہیں جو اس نے 2019 کے پارلیمانی انتخابات اور 2020 کے ہل کونسل کے انتخابات سے قبل اپنے انتخابی منشور میں لداخ کے لوگوں سے کیے تھے۔ وانگچک نے ایکس پر لداخ کےلئے حکومت کے رویے کی تنقید کرتے ہوئے کہا یہ بی جے پی حکومت بھارت کو فخر سے ”جمہوریت کی ماں“ کہتی ہے۔ لیکن اگر بھارت لداخ کے لوگوں کو جمہوری حقوق دینے سے انکار کرتا ہے اور اسے نئی دہلی کے ماتحت رکھتا ہے تو اسے لداخ کے حوالے سے’جمہوریت کی سوتیلی ماں‘ ہی کہا جائے گا۔ 6 مارچ کو کرگل ڈیموکریٹک الائنس اور مرکزی حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہڑتال آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ہڑتال کی قرارداد ایک اجلاس کے دوران طے پائی ہے اور حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے بارے میں عوام کو آگاہ بھی رکھنا ہے۔ کرگل ڈیموکریٹک الائنس نے کرگل میں 20 مارچ کی صبح فاطمیہ چوک سے حسینی پارک تک ایک احتجاجی مارچ کا انعقاد کیا، جہاں تنظیم کے نمائندوں نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین کرگل کے مرکزی بازار میں جمع ہوئے جو جمہوریت اور ریاست کی بحالی اور لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے مطالبات سے گونج اٹھا۔سال 2019 میں لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری کے طور پر قائم ہونے کے بعد سے، ایل اے بی اور کے ڈی اے دونوں مختلف مظاہروں اور بات چیت کے ذریعے خطے کے حقوق کے لیے فعال طور پر مہم چلا رہے ہیں۔ جنوری میں وزارت داخلہ کو مطالبات کی ایک جامع فہرست جمع کروانے کے باوجود، بعد کی ملاقاتیں کوئی ٹھوس نتائج برآمد کرنے میں ناکام رہیں۔ آرٹیکل 244 کے تحت، چھٹا شیڈول قبائلی آبادیوں کو آئینی تحفظات فراہم کرتا ہے اور انہیں زمین، صحت عامہ اور زراعت سے متعلق قوانین بنانے کے لیے خود مختار ترقیاتی کونسلیں قائم کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق لداخ میں 46.4 فیصد مسلمان آباد ہیں جن کی آبادی تقریبا تین لاکھ ہے۔ لہیہ اور کارگل یہاں دو اضلاع ہیں۔ لہیہ میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے اور کارگل میں مسلمان ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی تھی اور ان کی باتیں کم سنی جاتی تھی، لیکن آج جب لداخ مسلم اکثریتی نہیں ہے تو کارگل کے لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔کارگل کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جب لہیہ اور کارگل میں تقریبا برابر آبادی ہے تو پھر زیادہ تر ترقیاتی منصوبے لہیہ کے لیے کیوں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو کارگل کی بھی اس طرح ترقی کرنی چاہیے جتنا وہ لہیہ میں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

Exit mobile version