معاشرے میں جب ظلم بڑھنے لگتا ہے تو عدالت کی دہلیز محض زنجیر عدل نہیں رہتی بلکہ دیوار گریہ بن جایا کرتی ہے، لوگ جب مایوسی کی دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں تو زنجیر عدل ہلانے کیلئے آجاتے ہیں، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے یہ فریضہ بہ احسن خوبی انجام دینے کی کوشش ضرور کی، مگر ابھی انہیں کامیابی نہیں ہو سکی، بہ حیثیت ایک سینئر صحافی مجھے ان عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کا اور اپنے گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینل کے ذریعے مجبور مہقور اور بے بس انسانوں کی فریادان تک پہنچانے کا طویل تجربہ ہے، میرے گروپ کے اخبارات میں اور میرے ان کالموں میں ان بے بس انسانوں کی فریادوں پر اعلیٰ عدالتوں نے از خود نوٹس لیکر جہاں ان کی داد رسی کی وہاں میں بھی اپنے رب کے حضور سرخرو ہوا کہ میرا قلم ان بے بس اور مجبور طبقات کی ریلیف کا باعث بنا، یہ ساری خدمات سماج کے حوالے سے ہیں، سماج کوئی بھی ہو وہ بغیر انصاف کے تشکیل نہیں پا سکتا، یہ سطور لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ چند روز پیشتر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد میں اے ڈی آر کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں انہوں نے کھل کر اس کانفرنس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس گل حسن کی تقاریر موثر اور معنی خیز تھیں اور ان میں بڑی جان تھی ان دونوں قابل احترام شخصیات نے اے ڈی آر کے حوالے سے ایڈیشنل کورٹ بنانے کے جس اقدام کا ذکر کیا یہ بھی ایک اچھا اقدام ثابت ہو گا، اظہار خیال کیا اور قوانین کو بدلنے کی ضرورت پر زور دیا، اطہر من اللہ ایک طویل سماجی خدمات کو سر انجام دینے کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے ہیں، موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کیے جانے والے فیصلوں کے اثرات پاکستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کریں گے، ان کی طرف سے قوانین پر نظر ثانی کرنے کی خواہش یقیناً ایک اچھا اور مثبت اقدام ہے جس سے سماج پر اچھے اور خوشگوار اثرات مرتب ہونگے، چند روز پیشتر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کے قوانین کے حوالے سے جو آبزرویشن دی وہ بھی نہایت فکر انگیز ہے، عمران خان کے ذکر پر یا د آیا کہ سنیئر صحافی برادرم خوشنود علی خان نے اپنے اخبار میں لکھے جانے والے ایک کالم میں اے پی این ایس کے وفد کی خیبر پختونخوا ہاؤس میں عمران خان سے ہونے والی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے وفد کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ اصحاب میں سے کسی کو نہیں جانتا، ماسوائے ایس کے نیازی اور خوشنود علی خان کے، عمران خان کے تذکرہ پر یاد آیا کہ 1996میں جب اس نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس وقت پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کے دفاتر میلوڈی مارکیٹ میں ہوا کرتے تھے، تحریک انصاف کا مرکزی دفتر چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھا، چنانچہ یہ اکثر و بیشتر میرے آفس مجھ سے ملاقات کرنے آیا کرتا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی اخبار اس کی دو کالم خبر بھی چھاپنے کو تیار نہ تھا، اس وقت میں نے اسے کہا کہ بڑے بڑے جلسے کرنے کیلئے اخراجات کی ضرورت ہوا کرتی ہے جو تم سے نہ ہو سکیں گے، اس لئے سماج عوام سے رابطے کیلئے اخبارات میں کالم لکھنا شروع کرو اس طرح تمہارا پیغام بیٹھے بٹھائے لاکھوں افراد تک پہنچ جایا کرے گا، چنانچہ عمران خان نے روزنامہ پاکستان میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور دو سال مسلسل کالم لکھتا رہا مگر جب وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوا تو پھر سب سے زیادہ خسارہ اور نقصان بھی پاکستان گروپ آف نیوز پیپرز کو اٹھانا پڑا، ہمارے اشتہارات کے ریٹ کم کر دیئے گئے بلکہ بعض اسٹیشن سے تو اشتہارات ملنا ہی بند ہو گئے تو یہ سلوک اس کے ساتھ کیا گیا جس سے شناسائی اور دیرینہ تعلق کا اعتراف انہوں نے کئی مرتبہ سب کے سامنے کیا، مجھے ایک اور اخبار نویس نے بتایا کہ وزیر اعظم بننے سے دو سال پہلے ایمبیسی روڈ والے آفس میں سینئر صحافی بھی موجود تھے اس نشست میں بھی عمران خان نے سب کے سامنے اعتراف کیا کہ میں ایس کے نیازی کا شمار دلیر اور محسنوں میں کرتا ہوں، عمران خان کا تذکرہ اس لئے کرنا پڑا کہ وہ ان دنوں عدالتوں کے حوالے سے خبروں میں ان ہیں اور ان کا ذکر عدالتوں کے حوالے سے ہو رہا ہے،اب دوبارہ واپس آتے ہیں عدلیہ کی طرف پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے ہمیشہ ممتاز اور پاپولر فیصلے کیے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تقریباً تمام طبقات کو زمینی حقائق اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ریلیف فراہم کیا، عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی آخری شب رات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کھل گئی اور غیر آئینی اقدام سے باز رہنے کا تاریخی فیصلہ دیا، مجھے لوگ ہمہ جہت شخصیت قرار دیتے ہیں مگر مجھے ہمیشہ اپنا صحافتی روپ ہی اچھا لگا یادش بخیر جب ق لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تو ایک شب رات کے کھانے پر چوہدری شجاعت نے وفاقی دار الحکومت کے چند سینئر صحافیوں کو اپنی رہائشگاہ پر مدعو کیا ان کی خواہش تھی کہ کچھ سینئر صحافی ان کے ہم رکاب بنیں اور سینیٹ کے ممبر بنیں جب چوہدری شجاعت نے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا تو میں نے ان سے کہا کہ چوہدری صاحب مجھے صحافی ہی رہنے دیں کیونکہ میں اس پلیٹ فارم سے اپنے سماج کی بہتر خدمت کر رہاہوں اگر سینیٹ کا ممبر بنا تو شاید اپنے پیشہ سے صحیح انصاف نہ کر سکوں، سماجی انصاف اور سماجی سدھار کے لئے میں گزشتہ تیس سالوں سے عملی طور پر قربانیاں دیتا چلا آرہا ہوں میرے گروپ کے اخبارات میں شائع ہونے والی کئی خبروں پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹسز لئے، جو اب پی ایل ڈی کا حصہ بن چکے ہیں، ان از خود نوٹسز سے جہاں اعلیٰ عدلیہ نے مجبور طبقات کو انصاف فراہم کیا وہاں مجھے ذاتی طور پر ذہنی سکون ملا اور میں نے بارگاہ ایزدی میں شکرانے کے نوافل ادا کیے کہ میرے قلم سے سماج کی خدمت ادا ہو سکی، اسلام آباد ہائی کورٹ بھی سماج کی خدمت بہتر انداز میں کررہی ہے، ابھی چند دن پہلے ہی چیف جسٹس نے اے آر وائی کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ملک بھر میں اس چینل کی نشریات ایک گھنٹہ کے اندر کھولنے کا حکم دیا، یقیناً یہ بھی ایک مستحسن فیصلہ ہے کیونکہ جمہوری ادوار میں رائے عامہ کی آواز کو دبانا جمہوری حکومتوں کو غیر مقبول بناتا ہے، ویسے پیمرا تو سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی نظر انداز کر دیا کرتا ہے مگر یہاں اسے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ من و عن تسلیم کرنا پڑا اس چینل کی بندش سے سینکڑوں ورکروں کا روزگار بھی وابستہ تھا یقیناً وہ بھی چیف جسٹس اور ہائیکورٹ کے حق میں دعا گو ہوں گے